کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 381
اضافہ کو ایک ناگزیر شرعی عمل قرار دے دیا، اس سے اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ تنہا اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے پر ایمان کے ساتھ محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی کو رسول ماننا کیوں فرض ہے؟ یعنی یہ معلوم ہوگیا کہ کوئی بھی عبادت اور کوئی بھی شرعی عمل اگر کتاب وسنت یا قرآن وحدیث سے اپنی دلیل نہیں رکھتا تو اللہ کے یہاں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور وہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے اقرار واعلان کے منافی بھی ہے۔ یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ نماز کی ہیئت، صفت اور طرز ادا ہر چیز، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اور متعین کردہ ہے اگرچہ اس کے بعض اعمال قرآنی حکم پر بھی مبنی ہیں ، دراصل نماز اللہ کے حکم اور رسول کے حکم کا حسین امتزاج ہے، اگر تکبیر تحریمہ، رفع یدین اور دعائے استفتاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل پر مبنی ہے، تو رکوع وسجود حکم الٰہی کی تعمیل سے عبارت ہیں ، جن کی کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہے، اس طرح اگر سورئہ فاتحہ اور نماز میں پڑھی جانے والی قرآنی آیات اور سورتیں اللہ کا کلام ہیں ، تو رکوع وسجود، قعدہ، تشہد اور دوسری حالتوں کے اذکار، اور درود وسلام وغیرہ کلام رسول ہیں ۔ دراصل حدیث سے قرآن پر اضافہ کی تعبیر اپنے حکم کے اعتبار سے غلط ہے کیونکہ جب قرآن کی رو سے اللہ کا حکم اور رسول کا حکم یکساں اور مساوی درجہ رکھتا ہے، تو پھر حدیث سے قرآن پر اضافے کے کیا معنی؟ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: صلوا کما رایتمونی اصلی ’’اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘[1] اپنے حکم میں بالکل اللہ تعالیٰ کے حکم: اقیموا الصلوٰۃ ’’نماز قائم کرو۔‘‘ کی طرح ہے کیونکہ اسی نماز پر اقامت نماز کا اطلاق درست ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح ہو اور احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اس طرح بیان کر دی گئی ہے کہ چشم تصور سے اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وفعل سے نماز کا جو طریقہ بتا دیا ہے وہ اللہ کے حکم: اقیموا الصلوٰۃ کا بیان نہیں ، بلکہ مستقل تشریع ہے، اس کو شرح وبیان کا نام دینا اس وقت درست ہوتا جب قرآن میں نماز کی کوئی ہیئت اور صفت بیان کی گئی ہوتی اور حدیث میں اس کے بعض پہلوؤں کی وضاحت ہوتی، البتہ یہ حکم الٰہی: اقیموا الصلوٰۃ کی تعمیل ضرور ہے۔ چوتھی مثال پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو نکاح میں جمع کرنا قرآن میں محرمات کا بیان: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ان عورتوں کی فہرست بیان فرما دی ہے جن سے نکاح کرنا حرام ہے، ان میں سات قسم کی ایسی عورتیں ہیں جن سے نکاح کی حرمت دائمی ہے۔ یہ فہرست بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نکاح کی
[1] بخاری: ۶۲۱