کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 380
روایتیں قصداً نقل کی ہیں ۔ ذیل میں میں اشارۃً ان روایتوں کا ذکر کر دینا چاہتا ہوں جو ان کے ظہور سے متعلق ہیں : ۱۔ جن صحیح حدیثوں میں مَہدی کے نام ’’محمد بن عبداللہ‘‘ کی صراحت ہے ان کی تعداد ۸ ہے جو علی، ابن مسعود، ابو سعید خدری، جابر بن عبداللہ، ثوبان ہاشمی اور ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور سنن ابو داود (۴۲۸۵) ابن ماجہ ۴۰۸۵) مستدرک حاکم (۸۷۱۶) مسند احمد (۱۱۲۳۰) میں موجود ہیں ۔ ۲۔ وہ صحیح روایتیں جن میں ان کے نام کی صراحت نہیں ، مگر ان کے اوصاف اور ان کے ظہور کے وقت کی صراحت ہے ان کی تعداد ۲۲ ہے اور یہ علی، ابن مسعود، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، جابر بن عبداللہ، جابر بن سمرہ، اور ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور صحیح بخاری (۳۴۴۹،۷۲۲۲)، مسلم: (۳۹۲، ۳۹۴، ۳۹۵، ۷۲۷۸، ۷۳۱۵، ۲۳۱۲، ۲۳۱۸)، ابو داؤد (۴۲۸۲، ۴۲۸۳، ۴۲۸۴، ۴۲۸۵)، ترمذی (۲۲۳۰-۲۲۳۲)، مسند احمد (۳۵۷۱-۳۵۷۳، ۴۰۹۸) صحیح ابن حبان (۵۹۵۳، ۵۹۵۴) میں موجود ہیں ۔ ۳۔ وہ صحیح موقوف اور مقطوع روایتیں جن میں ان کا ذکر آیا ہے ان کی تعداد ۱۱ ہے جو علی، عبداللہ بن عمرو، محمد بن سیرین، علی بن عبداللہ بن عباس، سعید بن مسیب اور مطر بن طہمان رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ۔ اس کثرت سے یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہور مَہدی حق ہے اور ان سے متعلق بکثرت ضعیف اور موضوع روایتوں کے وجود سے ان صحیح حدیثوں کی صحت اور دلالت متاثر نہیں ہوتی، بلکہ ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ تیسری مثال اقامت نماز اسلام میں نماز عملی ارکان کا پہلا رکن ہے، تعداد کے اعتبار سے بھی اور ترتیب ودرجہ کے اعتبار سے بھی، اقامت نماز سے اللہ کی کوئی شریعت بھی خالی نہیں رہی ہے اور اللہ کی اس شریعت، شریعت محمدی میں شہادتیں یا اللہ و رسول پر ایمان کے بعد مومن پر فرض کیا جانے والا یہ پہلا عمل ہے، اقامت نماز کے حکم سے قرآن پاک بھرا پڑا ہے، یہ ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے، مگر نماز کی اس تمام تر اہمیت کے باوجود قرآن پاک میں نماز کی اقامت کا کوئی ایسا طریقہ نہیں بتایا گیا ہے جس پر عمل کر کے ایک مومن وہ نماز ادا کر سکتا ہو جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے، یہ صحیح ہے کہ قرآن میں قیام، رکوع اور سجود کا ذکر بھی آیا ہے اور قراء ت قرآن کا بھی، اور قرآن سے نماز کے اوقات کا مبہم اشارہ بھی ملتا ہے، لیکن ان قرآنی بیانات کی روشنی میں کوئی شخص صحیح اور مطلوبہ وقت میں نماز کا کوئی ایک فعل بھی، مثلاً قیام بھی ادا نہیں کر سکتا، پوری نماز ادا کرنے کی بات تو الگ ہے۔ نماز سے متعلق مذکورہ بالا حقائق سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نماز جیسی اہم عبادت، جو ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے اور جو ایمان کی صحت کی علامت ہے، صرف قرآن کی روشنی میں ادا نہیں کی جا سکتی، تو پھر دین کے دوسرے فرائض کس طرح ادا کیے جا سکتے ہیں ؟ اس سوال نے حدیث یا سنت کی ضرورت کو واضح کر دیا اور قرآن پر حدیث سے