کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 377
اگر تم چاہو تو پڑھو: ﴿وَ اِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًاo﴾ (النساء: ۱۵۹) ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو ان کی موت سے پہلے -یا اپنی موت سے پہلے- ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہو گا۔‘‘ آیت مبارکہ میں ’’قبل موتہ‘‘ کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ؛ پہلی تفسیر اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ ’’موتہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزول کے بعد اہل کتاب -یہود و نصاریٰ- میں کوئی ایسا نہیں رہ جائے گا جو ان پر ایمان نہ لے آئے گا۔ دوسری تفسیر اس اعتبار سے ہے کہ ’’موتہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع مرنے والا کتابی ہے اور آیت کا مطلب ہے کہ یہود و نصاریٰ میں سے ہر مرنے والا شخص عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آتا ہے۔ یہ دونوں مطلب آیت سے نکلتے ہیں اور الفاظ قرآن کے مطابق ہیں ، البتہ ان کے نزول کے بعد ان پر ایمان لانے والے کا ایمان معتبر ہو گا، جبکہ دوسرے کا ایمان مجبوری کا ایمان ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہو گا۔ ۲۔دوسری حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((کیف انتم إذا نزل ابن مریم فیکم و إمامکم منکم؟)) ’’کیسے ہو گے تم جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تمہی میں سے ہو گا۔‘‘ [1] ۳۔ تیسری حدیث: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((لا تزال طائفۃ من أمتی یقاتلون علی الحق ظاہرین الی یوم القیامۃ، قال: فینزل عیسی ابن مریم، فیقول أمیرہم: تعال صل لنا، فیقول: لا، إن بعضکم علی بعض أمراء، تکرمۃ اللہ ہذہ الأمۃ)) ’’میری امت کا ایک گروہ برابر حق کی بنیاد پر لڑے گا اور قیامت تک غالب رہے گا، پھر فرمایا: پس عیسی ابن مریم نازل ہوں گے، مسلمانوں کا امیر ان سے عرض کرے گا: آئیے ہمیں نماز پڑھائیے، وہ جواب دیں گے: نہیں ، تم میں سے بعض بعض کے امیر ہیں ، وہ اللہ کی طرف سے اس امت کی عزت افزائی کا لحاظ کرتے ہوئے یہ فرمائیں گے۔‘‘ [2]
[1] بخاری ۳۴۴۹، مسلم ۱۵۵-۲۴۴ [2] مسلم: ۱۵۶