کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 376
نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا … اور انہوں نے یقینا اسے قتل نہیں کیا۔‘‘
ان کے دعویٰ کی تردید نہیں ، تائید بن جائے گا۔ لہٰذا ’’توفی‘‘ کے قرآنی استعمال کی رعایت کرتے ہوئے انی متوفیک کے معنی ہیں کہ میں تم پر نیند طاری کر کے تم کو اپنے قبضہ اور تحویل میں لے کر تم کو اپنی طرف آسمان میں اٹھا لوں گا۔
سورۂ نساء کی آیت ۱۵۸ میں بھی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لینے کا ذکر کیا ہے ایک تو اس کا اعادہ دوم اس کا سیاق و سباق ان کے قتل کیے جانے اور قدرتی موت مرنے دونوں کے تمام امکانات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًاo بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًاo﴾ (النساء: ۱۵۷-۱۵۸)
’’اور یقینا انہوں نے اسے قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ ہر چیز پر غالب کمال حکمت والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے پورے سلسلۂ بیان کے آخر میں اپنے جن دو صفاتی ناموں کا ذکر فرمایا ہے ان سے عیسیٰ علیہ السلام کے یہودیوں کی ناپاک سازش سے محفوظ رکھے جانے اور زندہ اٹھا لیے جانے کی حکمت آشکارا ہوتی ہے۔ اللہ ہی کمال عزت و غلبہ سے موصوف ہے اس کے فیصلے اور تدبیر کو کوئی بھی بدلنے یا نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا، پھر اس کا ہر فعل اور فیصلہ عظیم تر حکمتوں کا حامل ہوتا ہے، جن کی تفصیلات احادیث پاک میں بیان ہوئی ہیں ۔
نزول عیسیٰ حدیث میں
۱۔پہلی حدیث:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((و الذی نفسی بیدہ، لَیُوْشَکَنَّ أَنْ ینزل فیکم ابن مریم حَکَمًا عَدَلًا، فیکسِرُ الصلیبَ و یقتل الخِنزیرَ، و یضع الجزیۃ و یَفِیْضَ المال، حتی لا یقبلہ أحد، حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا و ما فیہا))
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہارے اندر ابن مریم حاکم عادل بن کر، ضرور نازل ہوں گے۔ پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سور کو ہلاک کر دیں گے، اور جزیہ ختم کر دیں گے، اور مال کی کثرت ہو جائے گی یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا اور حالت یہ ہو جائے گی کہ ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو گا۔‘‘ [1]
اس حدیث کے آخر میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کا اضافہ ہے:
[1] بخاری ۲۲۲۲، ۳۴۴۸، مسلم ۱۵۵