کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 375
’’توفی یتوفی‘‘ باب تفعل سے ہے اور اس کی اصل ’’وفی‘‘ ہے توفی کے لغوی معنی لینے اور قبض کرنے کے ہیں ۔ کہتے ہیں : توفی فلان حقہ فلاں نے اپنا پورا پورا حق لے لیا۔ اگر اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اور کہا جائے: توفی اللہ فلانا اللہ نے فلاں کو وفات دے دی، تو معنی ہوں گے: وہ شخص مر گیا۔ اسم فاعل کی صورت میں ، یعنی ’’متوفی‘‘ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور جو وفات پاتا ہے اس کو حرف ’’ف‘‘ پر زبر کے ساتھ ’’متوفَی‘‘ کہتے ہیں جو اس فعل کا اسم مفعول ہے۔
قرآن پاک میں ایک جگہ کے علاوہ ہر جگہ چاہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو یا فرشتوں کی طرف یہ لفظ موت ہی دینے کے معنی میں آیا ہے۔ صرف سورۂ انعام کی آیت نمبر ۶۰ میں ’’نیند‘‘ طاری کر دینے کے معنیٰ میں آیا ہے:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ﴾ (الانعام: ۶۰)
’’وہی تو ہے جو تمہیں رات میں قبض کر لیتا ہے اور جانتا ہے کہ دن میں تم نے کیا کمایا۔‘‘
معلوم ہوا کہ ’’توفی‘‘ کے معنی اماتۃ -مار دینے- اور انامۃ -سلا دینے- دونوں کے ہیں اور اس کا اصل معنیٰ ’’قبض کر لینا دونوں میں موجود ہے اور یہ دونوں معنیٰ اس لفظ توفی کے حقیقی معنی ہیں ۔
موت اور نیند دونوں میں اللہ تعالیٰ روح قبض کر لیتا ہے، البتہ موت کی حالت میں جسم سے روح کا تعلق اور رشتہ باقی نہیں رہتا اور اس دنیا میں اس جسم میں اس کی دوبارہ واپسی کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا۔ جبکہ نیند کی حالت میں بھی روح جسم سے نکل جاتی ہے، مگر اس سے اس کا رشتہ باقی رہتا ہے اور وہ اس میں واپس بھی آتی رہتی ہے اس طرح ایک انسان ہر روز مرتا اور زندہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں حقیقتیں ایک ہی آیت میں بیان کر دی گئی ہیں ۔
﴿اللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضَی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرَی اِِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَo﴾ (الزمر: ۴۲)
’’اللہ روحیں ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور وہ بھی جو نہیں مری ہیں ان کی نیند میں ، پھر جن پر اس نے موت کا فیصلہ کر دیا ہے ان کو روک لیتا ہے اور دوسری کو ایک متعینہ وقت تک چھوڑ دیتا ہے، یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موت اور نیند دونوں حالتوں میں روحیں قبض کر لیتا ہے۔
سورۂ آل عمران کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد: إنی متوفیک کا یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ میں تم کو ’’موت دینے والا ہوں ‘‘ کیونکہ جہاں اس کے بعد کا فقرہ و رافعک إلی یہ مطلب لینے میں مانع ہے وہیں سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے دعوے: اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا ہے۔‘‘ کی تردید میں جو یہ فرمایا ہے وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ … وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ’’انہوں نے