کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 373
اسی طرح یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور ان پر اور ان کی پاکباز والدہ پر نہایت گندے الزامات لگائے اور جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنی دعوت سے باز نہیں آ رہے ہیں اور ان کی دعوت کو مقبولیت بھی حاصل ہوتی جا رہی ہے تو انہوں نے ان کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا یہ سب کچھ انہوں نے یہ جانتے ہوئے کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں خود موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے وہ ایذائیں دے چکے تھے جو ان کے بہت بڑے محسن بھی تھے اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو سازشیں کیں ، آپ کو جو ایذائیں دیں اور آپ کو شہید کرنے کے جو منصوبے بنائے وہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں ۔ اپنی اس مذموم اور اخلاق سوز خصلت پر چلتے ہوئے یہودیوں نے بنو اسرائیل کے آخری رسول عیسی علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور جس جگہ وہ موجود تھے یا جس جگہ ان کو انہوں نے قید کر رکھا تھا اپنے چند اوباشوں کو بھیجا کہ وہ ان کو ان کے پاس پا بجولاں لائیں اور وہ ان کو سولی دے دیں ، مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس شیطانی سازش کو عملی جامہ پہنائیں اللہ نے اپنے رسول کو ان کی اس سازش کی اطلاع دیتے ہوئے ان کو یہ خوشخبری دے دی کہ وہ ان کو ان کی روح و جسم کے ساتھ اپنی حفاظت میں لے کر ان کو آسمان پر اٹھا لے گا اور ان کو اس گندی فضا سے نکال لے گا جس میں ان کو گندے اور ناپاک الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس طرح جب یہودی اوباش اور شرپسند عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو عیسیٰ علیہ السلام کا شبیہ اور ہم شکل بنا دیا اور ان کو اسی حال میں آسمان پر اٹھا لیا۔ ادھر جب یہ یہودی اپنے اکابر مجرمین کے پاس واپس آئے تو انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل کو سولی دے دی، جبکہ وہ چلاتا رہا کہ میں مسیح نہیں ہوں اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی چال خود انہی پر الٹ دی۔ بعد میں مسیح علیہ السلام کے شبیہ کو قتل کرنے والوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ ہم نے مسیح عیسی ابن مریم، اللہ کے رسول کو قتل کر دیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعویٰ کی تکذیب فرما دی اور نہایت واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا ہے اور نہ اس کو سولی پر چڑھایا ہے، بلکہ انہوں نے جس کو قتل کیا ہے وہ ان کا شبیہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے قتل تو کیا ہے، لیکن مقتول اور مصلوب عیسیٰ نہیں ان کا شبیہ تھا۔ پورا واقعہ میں نے مرتب شکل میں بیان کر دیا ہے۔ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ بیان کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo﴾ (آل عمران: ۵۴) ’’اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔‘‘ دشمن سے انتقام لینے اور اس کو نیچا دکھانے اور اس کو خود اس کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسانے کے لیے مخفی اسباب و ذرائع استعمال کرنے کو مکر، کید اور خداع وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔