کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 372
ظہور، عیسیٰ علیہ السلام کے نزول، دجال کے خروج، یاجوج ماجوج کے آزاد کیے جانے اور دابۃ الارض کے خروج کے واقعات سرفہرست ہیں ان میں سے یاجوج ماجوج کے آزاد کیے جانے اور ہر جگہ سے ان کے نکل پڑنے اور دابۃ الارض کے خروج کا ذکر تو مختصراً قرآن پاک میں آیا ہے ، لیکن مہدی کے ظہور، عیسیٰ کے نزول اور دجال کے خروج کی پیشین گوئیاں صرف احادیث میں کی گئی ہیں ، اور نہایت تفصیل سے کی گئی ہیں ۔ جو لوگ عقیدہ سے متعلق ہر چیز کی صحت کے لیے اس کے قرآن میں مذکور ہونے کی شرط لگاتے ہیں اور جو لوگ اس طرح کی کوئی شرط تو نہیں لگاتے، البتہ احادیث کو تنقیدی نظروں سے دیکھنے کے خوگر ہیں وہ مَہدی کے ظہور، عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کے خروج کی حدیثوں کو نہیں مانتے، اس طرح کے لوگوں کی تعداد ہر زمانے میں بہت زیادہ رہی ہے، اس لیے اولاً تو میں اس مسئلہ میں ان لوگوں کے دعوؤں کا ذکر کیے بغیر اصولی بحث کروں گا ثانیاً میری یہ بحث نزول عیسی کے نقطہ پر مرکوز ہو گی جس سے مَہدی کا ظہور اور دجال کا خروج جُڑا ہوا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پا گئے؟ قرآن پاک میں نہ اس بات کی صراحت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور نہ اس بات کی طرف کوئی معمولی سا ہی اشارہ ہے کہ ان کی وفات ہو گئی، البتہ قرآن پاک میں اس مسئلہ کو جس معجزانہ اسلوب اور پیرائے میں بیان کیا گیا ہے اس سے ان کی زندگی کا نہایت یقینی ثبوت ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو کس طرح بچایا؟ میں عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے پر قرآنی شہادت پیش کرنے سے قبل سورۂ آل عمران کی آیات نمبر ۵۴-۵۸ اور سورۂ نساء کی آیت ۱۵۷-۱۵۸ کی روشنی میں ان کے قتل کی یہودی سازش اور اللہ تعالیٰ کے اپنی تدبیر خاص سے اس کو ناکام بنادینے اور عیسیٰ علیہ السلام کو جسم و روح کے ساتھ آسمان پر اٹھا لینے کے واقعہ کو مرتب شکل میں بیان کر دینا چاہتا ہوں ، تاکہ جہاں ان آیات کا صحیح مفہوم سمجھ میں آ جائے وہیں یہ بھی پورے یقین سے معلوم ہو جائے کہ یہودی نہ تو ان کو قتل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ وہ قدرتی موت ہی مرے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں یہودیوں کی جو ناپاک خصلت بیان کی ہے وہ قرآن کے الفاظ میں یہ ہے: ﴿لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمْ رُسُلًا کُلَّمَا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَہْوٰٓی اَنْفُسُہُمْ فَرِیْقًا کَذَّبُوْا وَفَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۷۰) ’’ہم نے بنو اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان کی طرف متعدد رسول بھیجے تھے، جب بھی ان کے پاس کوئی رسول ایسی بات لے کر آتا جو ان کی خواہش کے خلاف ہوتی تو کچھ کی انہوں نے تکذیب کی اور کچھ کو قتل کرتے رہے۔‘‘