کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 371
’’اگر تمہارا مطلب اللہ تعالیٰ کا جسم نہ ہونے سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی ذات نہیں جو اپنے شایان شان صفات سے موصوف ہے، تو تمہارا دعویٰ باطل ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی ذات صفات سے موصوف ہے اور اس کا چہرہ بھی ہے اور ہاتھ بھی اور آنکھ بھی ہے اور پاؤں بھی اور تم ان سے لازم آنے کی جو رٹ چاہو لگاتے رہو؛ اس کی صفات سے لازم آنے والی اور ضروری قرار پانے والی ہر شے حق ہے۔ ‘‘[1] اہل سنت و جماعت کا عقیدہ: میں نے اللہ تالیٰ کے اسماء و صفات سے متعلق لوگوں میں زبان زد اصطلاحوں کو عام فہم زبان میں بیان کر دیا ہے اب ان اسماء و صفات کے بارے میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ شیخ الاسلام امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے الفاظ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں جو سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں ، فرماتے ہیں : ((و من الإیمان باللہ: الإیمان بما وصف بہ نفسہ فی کتابہ، و بما وصفہ بہ رسولہ صلي اللّٰه عليه وسلم من غیر تحریف، و لا تعطیل، و من غیر تکییف و لا تمثیل، بل یؤمنون بأن اللہ سبحانہ لیس کمثلہ شیء و ہو السمیع العلیم، فلا ینفون عنہ ما وصف بہ نفسہ، و لا یحرفون الکلم عن مواضعہ، و لا یلحدون فی أسماء اللہ و آیاتہ، و لا یکیفون و لا یمثلون صفاتہ بصفات خلقہ، لأنہ سبحانہ لا سمی لہ، و لا کفو لہ و لا ندلہ)) ’’اللہ پر ایمان میں اُن صفات پر ایمان بھی داخل ہے جن سے اس نے اپنی کتاب میں اپنے آپ کو اور جن سے اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو موصوف کیا ہے، اور ان میں کوئی تحریف، تعطیل اور تکییف اور تمثیل روا نہیں ہے۔ بلکہ اہل سنت و جماعت اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ ایسا ہے جس کے مانند کوئی شے نہیں اور وہ ہر چیز سننے والا ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے، وہ اُن صفات کا انکار نہیں کرتے جن سے اس نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے اور نہ کلام کو اس کے محل سے پھیرتے ہیں اور نہ اللہ کے اسماء اور آیات کے بارے میں کج روی کے مرتکب ہوتے ہیں ، اور نہ ان کی کوئی کیفیت بیان کرتے ہیں اور نہ اس کی صفات کو اس کی مخلوقات کی صفات کے مانند قرار دیتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نہ کوئی مماثل ہے، نہ کوئی ہمسر، اور نہ کوئی ہم رتبہ۔ ‘‘[2] دوسری مثال، عیسیٰ علیہ السلام کا نزول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں قرب قیامت کی جن علامتوں کی پیشین گوئیاں کی ہیں ان میں مَہدی کے
[1] شرح العقیدۃ الواسطیۃ ص ۳۲۱ [2] العقیدۃ الواسطیۃ، ص ۶۔