کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 370
تجسیم: جسم یجسم تجسیما کے معنی ہیں جسم ثابت کرنا جسم کے معنی بدن اور ڈھانچہ کے ہیں ، اور ہر وہ چیز جس میں لمبائی، چوڑائی اور گہرائی پائی جائے اس پر جسم کا اطلاق کرتے ہیں ۔ اس اصطلاح: تجسیم کا استعمال سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کرنے والوں نے اہل سنت و جماعت کے حق میں کیا، پھر ان کی کتابوں میں ’’مجسمہ‘‘ اہل سنت و جماعت کا لقب بن گیا، کوثری کی تحریروں میں اہل سنت و جماعت اور محدثین کی مذمت کے طور پر اس کا بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔ صفاتِ الٰہی کے منکرین کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جن صفات کا اثبات کیا ہے، جیسے: ہاتھ، چہرہ، پنڈلی، نزول اور آنا وغیرہ تو یہ ایسی صفات یا اعراض ہیں جو کسی جسم کے ساتھ ہی پائی جا سکتی ہیں ۔ جسم کے بغیر ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا، جبکہ اللہ کے لیے جسم ہونا محال ہے۔ لہٰذا اپنے زعم باطل میں ’’تجسیم‘‘ سے بچنے کے لیے انہوں نے صفات ہی کا انکار کر دیا، رہے متکلمین -اشاعرہ اور ما تریدیہ- تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے آٹھ صفات مانی ہیں ، جیسے: حیات، علم اور قدرت وغیرہ تو یہ بھی ایسی صفات ہی سے عبارت ہیں جو کسی جسم کے ساتھ وابستہ رہ کر ہی پائی جا سکتی ہیں ۔ یہاں میں ’’احقاقِ حق‘‘ کی خاطر ایک بار پھر یہ واضح کر دوں کہ قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے نہ تو جسم کا اثبات ہے اور نہ نفی۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے جسم ثابت کرتا اور مانتا ہے اس سے اور جو اس سے اس جسم کی نفی کرتا ہے، اس سے یہ منطقی سوال کیا جا سکتا ہے: جسم سے تمہاری مراد کیا ہے؟ ’’اگر جسم سے تمہاری مراد لمبائی چوڑائی اور دبازت سے موصوف بدن ہے، کیونکہ لغت میں اسی کو جسم کہتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ کی ذات عقل و نقل دونوں کی رو سے ایسا جسم رکھنے سے پاک اور منزہ ہے، دوسرے لفظوں میں وہ ہڈیوں ، خون اور گوشت سے مرکب جسم نہیں رکھتا۔ اور اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ جوہر -عرض کی ضد- مادہ اور شکل سے مرکب ہے تو ایسا جسم بھی اللہ تعالیٰ سے منفی ہے۔ لیکن اگر تم جسم سے مراد ایسا جسم لیتے ہو جو صفات سے موصوف ہے، آنکھوں سے دیکھتا ہے، بات کرتا ے، اس سے بات کی جاتی ہے، وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے، راضی ہوتا ہے، خوش ہوتا ہے اور غضب ناک ہوتا ہے تو اس کے لیے یہ صفات ثابت ہیں اور ان کی وجہ سے اس کے حق میں جسم ثابت ہونے کے تمہارے دعویٰ کی بنیاد پر اس کی ذات سے ہم ان کی تردید اور انکار نہیں کرتے۔‘‘ [1] اسی بات کو میں علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کے الفاظ میں یوں کہہ سکتا ہوں :
[1] تعلیق علی لوامع الانہار البہیۃ لابن سمحان بحوالہ معجم الفاظ العقیدہ ص ۸۱