کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 368
کے معطوف علیہ کے بعد آنے اور وقوع پذیر ہونے پر دلالت کرتا ہے، یعنی آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کے بعد وہ عرش پر بلند ہوا۔ تو یہ اس کی خاص ’’علو‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی علو، بلندی اور فوقیت کی دو قسمیں ہیں ؛ معنوی اور ذاتی۔ اللہ تعالیٰ کی معنوی بلندی کے قائل اہل سنت اور اہل بدعت دونوں ہیں ۔ رہی اللہ تعالیٰ کی ذاتی فوقیت تو اہل سنت و جماعت اس کے قائل ہیں لیکن اہل بدعت اس کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ اس کے دلائل سے قرآن و حدیث بھری پڑی ہیں اور اس علو اور فوقیت کو عقل اور فطرت بھی مانتی ہے۔ اہل شرک اور کفر بھی، بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں پر جب کوئی آفت آتی ہے یا وہ کسی مصیبت سے دو چار ہوتے ہیں جس کو دفع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو ان کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی ذاتی علو اور فوقیت کا انکار مکابرہ اور ہٹ دھرمی ہے۔ تعطیل: عطل یعطلُ کا مصدر ہے جس کے معنی ترک کر دینے، چھوڑ دینے اور بیکار کر دینے کے ہیں ، قرآن پاک میں ’’و بئر معطلۃ‘‘ ’’بے کار چھوڑے ہوئے کنویں ‘‘ آیا ہے۔ یہ معطلۃ اسی فعل سے اسم مفعول ہے۔ عقیدہ کے باب میں تعطیل کے معنی ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے جو اسماء اور صفات بیان فرمائی ہیں ان سب کا یا ان میں سے کسی کا انکار۔ یہ انکار ان کو نہ مان کر بھی کیا جا سکتا ہے اور ان کی تحریف کر کے بھی۔ تعطیل اور تحریف میں یہ فرق ہے کہ تعطیل کسی صفت کے حقیقی معنیٰ کے انکار سے عبارت ہے، مثلاً ’’ید اللہ‘‘ سے قوۃ اللہ اور قدرۃ اللہ‘‘ اللہ کی قوت اور اللہ کی قدرت مراد لینا تحریف ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے بارے میں یہ کہنا: میں اس کے معنی کو اللہ کے حوالہ کرتا ہوں ، کیونکہ مجھے وہ معلوم نہیں ہے تعطیل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کی تاویل کرنے والا ان کا محرف ہے۔ تکییف: یہ ’’کیف‘‘ سے بنا ہے اور کَیَّفَ یُکَیِّفُ کا مصدر ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں : اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی خاص کیفیت، حالت اور شکل بیان کرنا، کتاب و سنت میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی کیفیت بیان کرنے سے بصراحت منع نہیں کیا گیا ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی شکل اور کیفیت بیان کرنا اللہ کی نسبت سے بلا علم کوئی بات کہنا ہے جو حرام ہے۔ لہٰذا اللہ کی کسی صفت کی کیفیت بیان کرنا بھی حرام ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقَّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (الاعراف: ۳۳)