کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 367
ایک ہی جگہ اس کو کسی اور اسلوب میں بیان کر دیا ہوتا۔ متکلمین اور معتزلہ نے ’’استوی علی العرش‘‘ کی استولی علی العرش عرش پر قابض ہوا، غالب ہوا- سے جو تاویل کی ہے اس کے حق میں ان کے پاس اہل لغت اور کتب لغت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ رہی ان کی یہ دلیل کہ استوی علی العرش کے حقیقی معنی مراد لینے سے اللہ کے لیے جسم ہونا لازم آتا ہے، لہٰذا جسم سے اس کی تنزیہ کے لیے استوی کے معنی ’’استولی‘‘ لینا ضروری ہے، ان کی خام خیالی اور ان کی سطحیت کے علاوہ اللہ تعالیٰ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ نعوذ باللہ اپنی صفات اور دوسرے احکام بیان کرنے پر قدرت نہیں رکھتا: ﴿کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًاo﴾ (الکہف: ۵) یہ ان کی دلیل کا پہلا جواب تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ: قرآن و حدیث کے احکام کو عام طور پر اور ان میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کو خاص طور پر حقیقی معنوں میں لینے سے جو کچھ بھی لازم آتا ہے، جو نتیجہ بھی نکلتا ہے اور جو کچھ بھی ضروری قرار پاتا ہے صرف وہی حق ہے اور صرف اسی کو ماننا ہمارے اوپر فرض ہے، اس تناظر میں اگر معتزلہ، متکلمین اور ان کے ہم نواؤں کی نگاہوں کو اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے اور اس پر رونق افروز ہونے میں اس کا جسم نظر آتا ہے تو آیا کرے، شریعت میں ان کی بیمار نگاہوں اور ان کے احکام کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت یا حدیث میں ایک بار بھی نہ اللہ کے لیے جسم کا اثبات کیا ہے اور نہ جسم کی نفی کی ہے۔ قرآن نے جو مسلمہ قاعدہ بیان فرما دیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان کو لیس کمثلہ شیء کے دائرہ اور حدود میں لیا جائے اور بس۔ چند ضروری وضاحتیں : ۱۔ عربی کے مقابلے میں اردو زبان کا دامن تنگ ہے لہٰذا اردو میں اللہ تعالیٰ کی صفات کابالکل صحیح ترجمہ مشکل ہے اس تناظر میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے وہ تمام ترجمے درست اور صحیح ہیں جو حقیقی ہوں اور مجازی نہ ہوں اور ان میں ان صفات کی کوئی کیفیت نہ بیان کی گئی ہو، مثال کے طور پر استوی علی العرش کا اردو ترجمہ عرش پر بلند ہوا بھی صحیح ہے اور رونق افروز ہوا بھی صحیح ہے، لیکن وہ عرش پر بیٹھا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اس میں ’’علو‘‘ کی ایک خاص کیفیت بیان ہوئی ہے۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ کی صفت علو اور فوقیت اس کی ذاتی اور ازلی و ابدی صفت ہے جس سے وہ کبھی بھی غیر موصوف نہیں رہا ہے اور نہ غیر موصوف ہو گا، لیکن عرش پر اس کی بلندی اور فوقیت فعلی اور خاص بلندی اور فوقیت ہے اور اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات اس کی مشیت کے تابع ہیں ۔ قرآن میں استوی علی العرش سے پہلے حرف عطف ’’ثم‘‘ آیا ہے جو معطوف