کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 366
اور ذکر لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی۔‘‘ [1] اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے جو حدیث مروی ہے اس کے الفاظ ہیں : ((کتب اللّٰہ مقادیر الخلائق قبل أن یخلق السموات و الأرض بخمسین الف سنۃ، قال: و عرشہ علی الماء)) ’’اللہ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھیں ، آپ نے فرمایا: اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ [2] استوی علی العرش: قرآن پاک میں فعل استوی یستوی استواء تین طریقوں سے استعمال کیا گیا ہے؛ حرف جر کے بغیر اور حرف جر کے ساتھ، اور حرف جر کے ساتھ دو طریقوں سے استعمال ہوا ہے؛ (۱) حرف جر ’’إلی‘‘ کے ساتھ (۲) حرف جر ’’علی‘‘ کے ساتھ۔ حرف جر کے بغیر استوی یستوی کے معنیٰ ہیں : کامل ہونا، مکمل جوان ہونا سورۂ قصص میں موسی علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَمَّا بَلَغَ أَشُدَّہٗ وَ اسْتَوٰی﴾ (القصص: ۱۴) ’’اور جب وہ اپنی توانائی کو پہنچ گیا اور مکمل جوان ہو گیا۔ ‘‘ حرف جر ’’إلی‘‘ کے ساتھ ’’استوی إلی‘‘ کے معنی ہیں : مکمل قصد کرنا، ارادہ کرنا، سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ﴾ (البقرۃ: ۲۹) ’’وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ، پھر اس نے آسمان کا قصد کیا۔‘‘ حرف جر ’’علی‘‘ کے ساتھ ’’استوی علی‘‘ کے معنی ہیں بلند ہونا اہل لغت نے اس ’’استوی‘‘ کے تین معنیٰ لکھے ہیں : علا، ارتفع اور صعد بلند ہوا، اوپر ہوا۔ یعنی یہ تینوں الفاظ مترادف اور ہم معنی ہیں ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر سات سورتوں میں استوی علی العرش کی تعبیر آئی ہے؛ (اعراف: ۵۴، یونس: ۳، رعد: ۲، طہ: ۵، فرقان: ۵۹، سجدہ: ۴، حدید: ۴) ایک ہی اسلوب اور تعبیر میں اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے بیان میں یہ تکرار اس کی اہمیت پر دلالت کرنے کے ساتھ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کو اسی معنیٰ اور مفہوم میں لیا جائے جو اس کے الفاظ سے نکلتا ہے اور متبادر ہوتا ہے، کیونکہ اگر اس اسلوب بیان سے اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے کے علاوہ کچھ اور مراد لینا درست ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے کسی
[1] بخاری : ۳۱۹۱، ۷۴۱۸ [2] نمبر ۲۶۵۳