کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 365
تعمیل کی بھی، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے کو بچا لیا۔ معتزلہ، متکلمین اور جہمیہ نے سب سے زیادہ ’’گند‘‘ ’’استوی علی العرش‘‘ کی تاویل میں کی ہے اور جہمیہ کے امام رازی تو اس میدان میں بہت آگے نکل گئے ہیں اس کتاب میں ان کے بعض افکار کا جائزہ مفصل لے چکا ہو، یہاں میں ’’استوی علی العرش‘‘ سے متعلق ان گمراہ فرقوں کے دعووں کا جواب دوں گا۔ عرش: عربی میں عرش سریر الملک -تختِ حکومت- کو کہتے ہیں ۔ نزول قرآن کے وقت عربوں میں اس کے معنیٰ معلوم و معروف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ملکۂ سبا کے تخت حکومت کو عرش عظیم سے تعبیر کیا ہے ہدہد نے سبا سے واپسی کے بعد سلیمان علیہ السلام کو قوم سبا کی خبر دیتے ہوئے کہا تھا: ﴿اِِنِّی وَجَدتُّ امْرَاَۃً تَمْلِکُہُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌo﴾ (النمل: ۲۳) ’’درحقیقت میں نے ایک ایسی عورت کو ان پر حکومت کرتے ہوئے پایا جسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بہت عظیم الشان ہے۔‘‘ یہ ہدہد کے اپنے تاثرات ہیں اور ’’من کل شیء‘‘ سے امور سلطنت سے متعلقہ اشیاء مراد ہیں ، ورنہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو اس سے کہیں زیادہ اسباب طاقت و شوکت عطا فرما رکھے تھے۔ اسی سورت نمل کی آیت نمبر ۲۶ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عرش کو بھی عظیم فرمایا ہے ارشاد ہے: ﴿اَللّٰہُ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo﴾ (النمل: ۲۶) ’’اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں عرش عظیم کا مالک۔‘‘ اس طرح کی ترکیب میں ’’رب‘‘ صاحب کے معنی میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے عرش کے مقابلے میں ملکۂ سبا کے عرش کی کیا حیثیت، اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی صفت سے دو چیزوں کے موصوف ہونے سے دونوں کی صفتوں میں مماثلت اور مساوات ضروری نہیں ۔ قرآن و حدیث میں عرش الٰہی کے بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بیان ہوئی ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے پانی اور عرش کی تخلیق فرما دی تھی، چنانچہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح بخاری کی حدیث کے الفاظ ہیں : ((کان اللہ و لم یکن شیء قبلہ و کان عرشہ علی الماء، ثم خلق السموات و الأرض و کتب فی الذکر کل شیء)) ’’اللہ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا، پھر اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا