کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 364
﴿قَالَ یَااِِبْلِیسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ (صٓ: ۷۵) ’’فرمایا، اے ابلیس! تجھے اس کا سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تخلیق بخشی ہے۔‘‘ تو اس اعتراض کا ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا، پھر بھی وہ تاویل سے باز نہیں آئے۔ ایک جملۂ معترضہ: یہاں جملہ معترضہ کے طور پر بعض مترجمین قرآن کی اس بھیانک اور فحش غلطی کی طرف اشارہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے جو ان سے ’’اسجدوا لآدم‘‘ آدم کو سجدہ کرو، یا ﴿اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ تم اس کا سجدہ کرتے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے‘‘ کے ترجموں میں ہوئی ہے، بعض مترجمین نے آدم سے پہلے آنے والے ’’لام‘‘ کا ’’لیے‘‘ ترجمہ کیا ہے اور بعض نے کہیں ’’لیے‘‘ ترجمہ کیا ہے اور کہیں نہیں کیا ہے۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ’’لام‘‘ سجد یسجد کا لازمی ’’صلہ‘‘ ہے یہ لام مسجود پر داخل ہوتا ہے اور الگ سے اس کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا، فعل ’’سجد یسجد‘‘ کا یہ لازمی صلہ ہے جس کے بغیر اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ پھر ’’لیے‘‘ کے اضافے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کو یہ حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں ، بلکہ آدم کے لیے سجدہ کریں ، یعنی مسجود وہ نہیں تھے کوئی اور تھا وہ صرف سجدہ کی علت اور سبب تھے۔ مترجمین سے شاید یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ غیر اللہ کا سجدہ کرنا حرام ہے اور اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ -آدم- کا سجدہ کرنے کا جو حکم دیا ہے وہ ان کا سجدہ نہیں ، ان کے سبب اور علت سے کسی اور کا سجدہ کیا ہے، اور بعض لوگوں نے خود سجدہ ہی کی تاویل کر ڈالی ہے، لیکن ایسا کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ اللہ تعالیٰ اپنے امر و نہی اور قول و فعل میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے: ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَo﴾ (الانبیاء: ۲۳) ’’وہ جو کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے سوال نہیں کیا جا سکتا اور وہ پوچھے جائیں گے۔‘‘ دراصل فرشتوں کو اور ابلیس کو آدم علیہ السلام کا سجدہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اور وہ جو حکم چاہے دے اور جس چیز سے چاہے روکے یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ وَ یَفْعَلُ مَا یَشَآء۔ معلوم ہوا کہ غیر اللہ آدم کا سجدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، لہٰذا عبادت تھا اور اس حکم کی تعمیل کر کے فرشتے مطیع قرار پائے اور اس سے اعراض کر کے ابلیس کافر اور نافرمان قرار پایا۔ اسی طرح کسی بے قصور اور معصوم انسان کو قتل کرنا حرام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر دیں تو یہ ان کے حق میں عبادت تھا جس کی تعمیل ان پر فرض تھی اور انہوں نے اس حکم کی