کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 363
((کان رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یکثر أن یقول فی رکوعہ و سجودہ: ’’سبحانک اللہم ربنا و بحمدک اللہم اغفرلی‘‘ یتأول القرآن)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع و سجدے میں کثرت سے سبحانک اللہم ربنا و بحمدک اللہم اغفرلی کہا کرتے تھے، قرآن کی تاویل فرماتے تھے۔‘‘ [1] ام المومنین کے قول: ’’یتأول القرآن‘‘ کے معنیٰ ہیں : ’’یعمل بالقرآن‘‘ قرآن پر عمل کرتے تھے اور قرآن سے مراد سورۂ نصر کی آیت ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ﴾ ہے اس لیے کہ جس طرح سورۂ فاتحہ سے سورۂ ناس تک قرآن ہے اسی طرح قرآن کی ایک آیت بھی قرآن ہے۔ ’’یتأول القرآن‘‘ ام المومنین کا قول ہے جو زبان داں ہونے کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک عمل کو نہایت دقت نظر سے دیکھتی تھیں اور آپ کے اذکار کو سراپا گوش بن کر سنتی تھیں اور ان کی سیرت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے رکوع میں ’’سبحان ربی العظیم‘‘ اور سجدے میں ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ کے بجائے کثرت سے ’’سبحانک اللہم ربنا و بحمدک اللہم اغفرلی‘‘ سننے پر آپ سے اس کا سبب دریافت کیا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا ہو کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ایسا کر رہے ہیں اور پھر مسروق سے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے ام المؤمنین نے اس کے لیے نہایت دقیق تعبیر ’’یتأول القرآن‘‘ اختیار کی ہو۔ احادیث کے فحوی سے ایسے حقائق معلوم ہوتے ہیں ، ان میں تمام باتوں کی تفصیلات نہیں مل سکتیں ، ایسی باتیں حدیث کے راوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت اور ان کے مزاج اور افتاد طبع سے واقفیت کی روشنی میں بھی معلوم کی جا سکتی ہیں ، ام المومنین تو ام المومنین تھیں ۔ ۵۔ ظاہر لفظ سے متبادر معنیٰ کے علاوہ کوئی اور معنیٰ مراد لینا: معتزلہ، متکلمین اور ان کے پیرو کاروں کا تمام تر مدار عقل پر ہے، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے متعلق وہ احادیث کو نہیں مانتے اور قرآن کی عقلی تاویلیں کرتے ہیں جن آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی ذاتی، معنوی اور فعلی صفات بیان ہوئی ہیں ، وہ ان کو ان کے ظاہری الفاظ سے متبادر ہونے والے معنوں میں نہیں لیتے، بلکہ اپنے خود ساختہ مجازی معنوں میں لیتے ہیں ، مثلاً وہ ’’ید اللہ‘‘ سے اللہ کا ہاتھ مراد نہیں لیتے، کیونکہ اس سے ان کے زعم باطل میں اللہ تعالیٰ کے لیے جسم کا ہونا لازم آتا ہے، لہٰذا وہ ’’ید اللہ سے اللہ کی قوت مراد لیتے ہیں ، لیکن جب یہ اعتراض کیا گیا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے ’’دو ہاتھوں ‘‘ کا بھی ذکر آیا ہے اور قوت، طاقت، قدرت وغیرہ کی تعداد نہیں ہوتی، چنانچہ سورہ ص میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] بخاری ۴۹۶۸ ، مسلم ۴۸۴