کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 362
چاہتے ہیں ، جبکہ اس کی حقیقت صرف اللہ -اور اس کی تفسیر علم میں گہرائی رکھنے والے جانتے ہیں - جانتا ہے، اور علم میں گہرائی رکھنے والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب کچھ ہمارے رب کے پاس سے ہے۔‘‘ تاویل بمعنی تفسیر سورۂ یوسف کی آیت نمبر ۳۶ کے اس فقرہ میں بھی ہے: ’’نبئنا بتأویلہ‘‘ ہمیں اس کی تعبیر - تفسیر- بتا دیجیے۔ بعض مفسرین، مثلاً امام طبری جب یہ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تاویل یہ ہے‘‘ تو اس سے ان کی مراد تفسیر ہی ہوتی ہے۔ ۳۔ نتیجہ اور انجام: سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ﴾ (الاعراف: ۵۳) ’’یہ لوگ صرف اس کے انجام کا انتظار کر رہے ہیں ، جس دن اس کا انجام آ جائے گا تو وہ لوگ، جنہوں نے اسے پہلے بھلائے رکھا تھا کہیں گے یقینا ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے۔‘‘ قرآن پاک میں دوسرے مقام پر بھی تاویل انجام اور نتیجہ کے معنی میں آئی ہے۔ ۴۔ تعمیل اور تنفیذ: اگر تاویل کا تعلق امر اور نہی سے ہو تو اس سے مراد اس کی تعمیل اور تنفیذ ہے۔ سورۂ نصر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًاo﴾ ’’تم اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو یقینا وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ صحیح احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۂ نصر کے نزول کے بعد اپنے رکوع اور سجود میں ’’سبحانک اللہم ربنا و بحمدک اللہم اغفرلی‘‘ کہنے لگے تھے، چنانچہ مسروق ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتی ہیں : اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی نماز نہیں پڑھی ہے جس میں آپ نے ’’سبحانک اللہم ربنا و بحمدک اللہم اغفرلی‘‘ نہ کہا ہو۔[1] ایک دوسری حدیث میں ام المومنین کے الفاظ ہیں :
[1] بخاری ۴۹۶۷، مسلم ۲۴۸۴۔