کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 361
ترجمہ ہو گا: اس کے معنیٰ اور تفسیر صرف اللہ تعالیٰ اور علم میں گہرائی رکھنے والے ہی جانتے ہیں ۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قرآن کی متشابہ آیات کے معنی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں یا ان کو جو علم میں رسوخ اور گہرائی رکھتے ہیں ۔ یہ قراء ت کرنے اور تاویل کے یہ معنیٰ لینے میں قواعدِ زبان اور عقیدہ دونوں اعتبار سے کوئی مانع نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلاف اور اہل سنت و جماعت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے معنیٰ معلوم اور معروف ہیں اور یہ وہی ہیں جو ان کے ظاہری الفاظ سے نکلتے اور متبادر ہوتے ہیں ، البتہ ان اسماء اور صفات کی کنہ اور حقیقت کا ادراک اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ اور اگر تاویل سے مراد حقیقت کا ادراک ہو، تو اس صورت میں آیت کی تلاوت یوں ہو گی: ﴿وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ﴾ اور اس کی حقیقت صرف اللہ جانتا ہے اس تلاوت میں ﴿اِلَّا اللّٰہُ﴾ پر وقف لازم ہو گا۔ اسلاف کی اکثریت اس دوسری تلاوت اور قراء ت کے حق میں رہی ہے۔ اس صورت میں قواعد زبان کے اعتبار سے ﴿الرّٰسِخُوْنَ﴾ سے پہلے کا واو ’’عاطفہ‘‘ نہیں ، بلکہ آغاز کلام کا واؤ ہو گا۔ اوپر آیت مبارکہ کی قراء ت کی جو دونوں صورتیں بیان کی گئی ہیں ، ان سے نہ تو پوری آیت کا عمومی مفہوم متاثر ہو گا، نہ بعد کے فقرہ کا سابق فقرہ سے ربط ٹوٹے گا اور نہ اسماء و صفات کے معنیٰ و مفہوم سے متعلق ہمارے صحیح اسلامی عقیدے پر کوئی برا اثر پڑے گا۔ بعد کا فقرہ ہے: ﴿یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ ’’وہ کہتے ہیں اس پر ہمارا ایمان ہے اور یہ سب کچھ ہمارے رب کے پاس سے ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ علم میں راسخ اور گہرے ہیں وہ پوری صاف گوئی اور تردد سے پاک لب و لہجہ میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ قرآن کی محکم اور متشابہ دونوں طرح کی آیتوں پر ان کا ایمان ہے اور وہ پورے یقین قلب کے ساتھ ان کو اللہ کا کلام مانتے ہیں ۔ اب پوری آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے جس میں دونوں قراء توں کے فرق کی رعایت کی گئی ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ (آل عمران: ۷) ’’وہی ہے جس نے تمہارے اوپر کتاب نازل کی ہے، جس کی کچھ آیتیں محکم -اپنے مفہوم، حکم اور خبر میں واضح- ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور دوسری متشابہات -مفہوم میں واضح اور حکم میں غیر واضح- ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ کی تلاش میں اس کے متشابہ کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور اس کی حقیقت جاننا