کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 360
بتائیں ، لیکن آپ خود ہی اسماء و صفات کی آیات اور احادیث کے معنیٰ نہیں جانتے تھے اور لوگوں سے ایسی باتیں فرماتے تھے جن کے مفہوم سے خود ناواقف تھے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے بڑی کوئی ہتک ہو سکتی ہے؟ [1] مذکورہ بالا وضاحتوں کا حاصل یہ ہے کہ قرآن پاک اور احادیث میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے معنیٰ معلوم و معروف ہیں اور یہ سب اپنے حقیقی معنوں ہی میں ہیں مجازی معنوں میں نہیں ، البتہ ان کی کیفیت اور حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، یہی ہمارے اسلاف کا عقیدہ تھا اور یہی اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے، رہے اسماء وصفات کے باب میں تفویض کا عقیدہ رکھنے والے تو اسلام اور اہل سنت و جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، اس باب میں امام مالک رحمہ اللہ کا قول بہت معروف و متداول ہے اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کی ہر کتاب میں اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب ان سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ ’’رحمن عرش پر مستقر ہے‘‘ (سورۂ طہ: ۵) کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: ’’استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت نامعلوم ہے اور اس کے بارے میں کھوج کرید بدعت ہے۔‘‘ امام بیہقی نے اسماء و صفات میں امام مالک کا جو قول صحیح سند سے نقل کیا ہے اس میں آیا ہے کہ ایک شخص ان کی خدمت میں آیا اور پوچھا: اے ابو عبداللہ! رحمن عرش پر بلند ہوا، اس بلند ہونے اور استقرار کی کیفیت کیا ہے؟ یہ سن کر امام مالک نے سر جھکا لیا، یہاں تک کہ ان کی پیشانی عرق آلود ہو گئی، پھر فرمایا: استواء نامعلوم نہیں ، کیفیت غیر معقول -عقل کی رسائی سے باہر ہے اس پر ایمان فرض ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور میرے خیال میں تم بدعتی ہو، اور حکم دیا کہ اس کو ان کی مجلس سے نکال دیا جائے۔[2] یہی رائے امام مالک کے استاذ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کی بھی تھی۔[3] ۲۔ تاویل: اَوَّلَ یُؤَوِّلُ کا مصدر ہے، جس کے متعدد معنیٰ آتے ہیں : ۱۔ تفسیر، اور حقیقت کا ادراک اور فہم سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۷ میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ﴾ میں تأویل کے معنیٰ تفسیر اور فہم کے بھی لیے جا سکتے ہیں اور کنہ اور حقیقت کے ادراک کے بھی، لیکن دونوں صورتوں میں آیت کی قراء ت میں وصل اور وقف کا اختلاف ہو گا؛ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر تاویل کے معنیٰ تفسیر یا فہم کے لیے جائیں تو ﴿وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ﴾ پر رکنے اور وقف کرنے کے بجائے ﴿وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ﴾ کو لفظ ’’جلالۃ‘‘ اللہ تعالیٰ پر عطف کر کے دونوں کو ملا دیا جائے گا اس طرح قراء ت یوں ہو جائے گی: ﴿وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ﴾ اور
[1] شرح العقیدۃ الواسطیۃ ص ۷۴-۷۵۔ [2] ص ۳۰۶ ج ۲، نمبر ۸۶۷ [3] فتاوی ابن تیمیہ ص ۳۶۵ ج ۵۔