کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 36
جانے والے سارے افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کی حیثیت سے جاتے یا انہیں اسلامی حکومت کے عامل کی عرفی حیثیت بھی حاصل ہوتی تھی وہ عام فرد نہیں ہوتے تھے، بلکہ ان کی ذات سے حکومت الٰہیہ کی اتھارٹی کا بھی اظہار ہوتا تھا، ان سے منسوب بیانات اور احکامات کو ایک عام راوی کی روایت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اس بنیاد پر یہ کلیہ تخلیق کیا جا سکتا ہے کہ ایک عادل اور ثقہ شخص کی دی ہوئی خبر دینی حجت ہوتی ہے۔‘‘ (روشنی ۲۷/ جمادی الاولی ۱۴۳۰ھ) ’’ڈاکٹر برنی کے امام ومقتدی نے بھی اپنے انداز میں انہی خیالات کا اظہار کیا ہے اور مذکورہ قسم کے واقعات کے ذکر اور ان سے امام شافعی رحمہ اللہ کے استدلال کو کمزور قرار دینے کے بعد اپنی بات اس فقرے پر ختم کی ہے: کسی حکومت کے امراء وعمال کی ایک حیثیت عرفی ہوتی ہے جس کو حکومت اور عوام دونوں جانتے ہیں ، ان کی باتیں ان کی حیثیت عرفی کی روشنی میں جانچی جاتی ہیں ، وہ ایک اٹھارتی کے مظہر ہوتے ہیں جس کا احترام ہر شخص کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔‘‘ [1] ان دونوں بزرگوں کی مذکورہ بالا عبارتوں سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ مختصراً یہ ہیں : ۱۔ ہر عدل اور ثقہ راوی کی خبر واحد حجت نہیں ہے، چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو، بلکہ صحابہ میں بھی عوام اور خواص کا وجود تھا اس تناظر میں صرف انہی صحابہ کی روایت کردہ اخبار آحاد قابل قبول اور حجت ہیں جو خواص سے تعلق رکھتے تھے اور عام صحابہ میں سے نہ تھے۔ ۲۔ جن صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایندے کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم بیان کیا ہے، خبر واحد ہونے کی صورت میں صرف وہی قبول کی جائے گی عام صحابیوں کی نہیں ۔ ۳۔ صحابہ کرام صرف اسی خبر واحد کو قبول کرتے تھے جس کی تصدیق وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر سکتے تھے۔ ۴۔ صحابہ کرام کے بارے میں تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے کبھی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولا۔ نتیجہ نمبر ۴، انہی الفاظ میں ڈاکٹر برنی کے اس مقالے میں موجود ہے جس کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے۔ ان چاروں دعووں پر میں مدلل تبصرہ بعد میں کروں گا اس وقت میں خبر واحد کے قابل اعتبار ہونے کو عمومی شکل میں ثابت کروں گا، پھر حدیث واحد کے دلیل وحجت ہونے کے دلائل دوں گا جن سے ان شاء اللہ تعالیٰ ان دونوں کے دعووں کے تار و پود بکھر جائیں گے۔
[1] مبادیٔ تدبر حدیث، ص: ۱۲۰۔