کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 359
ہے؛ یہ اسلاف کا مسلک نہیں رہا ہے، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((و اما التفویض: فإن من المعلوم أن اللہ تعالیٰ أمرنا أن نتدبر القرآن، و حضنا علی عقلہ و فہمہ، فکیف یجوز مع ذلک أن یراد منا الإعراض عن فہمہ و معرفتہ، و عقلہ؟)) ’’رہی تفویض: تو یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم قرآن میں تدبر کریں اور اس نے ہمیں اس کے سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی ترغیب دی ہے ایسی صورت میں یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ہم سے قرآن کے فہم، اس کی معرفت اور اس کو ذہن نشین کرنے سے اعراض بھی مطلوب ہو؟‘‘ آگے تحریر فرماتے ہیں : ((فتبین أن قول أہل التفویض الذین یزعمون أنہم متبعون للسنۃ و السلف من شر أقوال أہل البدع و الإلحاد)) ’’واضح ہوا کہ تفویض کا عقیدہ رکھنے والوں کا یہ قول، جو اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ وہ سنت کے پیرو اور اسلاف کے طریقے پر گامزن ہیں مبتدعین اور ملحدین کے بدترین اقوال میں سے ایک ہے۔‘‘ [1] بلاشبہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صفات باری تعالیٰ کے معانی کی تفویض کرنے والوں پر جو حکم لگایا ہے وہ مبنی برحق ہے، اس قول پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ قرآن کی تکذیب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سے ناواقف قرار دینے اور فلاسفہ کی غیر معمولی تصدیق سے عبارت ہے۔ تفویض کا یہ عقیدہ قرآن کی تکذیب اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ﴾ (النحل: ۸۹) ’’اور ہم نے تمہارے اوپر اس کتاب کو ہر چیز کانہایت واضح بیان بنا کر نازل فرمایا ہے۔‘‘ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے معنی اور مفہوم ہی سے واقف نہیں تھے تو پھر یہ کتاب بیان کس طرح ہوئی؟ قرآن پاک میں ہر چیز سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا ذکر ہے، اور اگر ہم ان اسماء و صفات کے معنیٰ ہی نہیں جانتے، تو قرآن ہر چیز کا واضح بیان کیسے ہوا؟ متکلمین کا یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں مذکور اسماء و صفات کے معنیٰ نہیں جانتے تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے معنیٰ نہیں جانتے تھے تو دوسرے لوگ بدرجۂ اول نہیں جان سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بھیجے ہوئے رسول تھے اور آپ کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ آپ لوگوں کو اللہ کی توحید
[1] درء تعارض العقل و النقل: ص ۲۱۴، ۲۱۷ ج ۱۔