کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 358
لیکن کتاب و سنت سے باہر کی کسی چیز کو بھی عقائد و اعمال کا ماخذ نہیں بنایا۔ موجودہ دور میں عربوں میں عموماً اور برصغیر میں خصوصاً فقہ کے چاروں مسلکوں سے وابستہ مسلمانوں کی اکثریت یا تو حنفی ہے یا شافعی، برصغیر میں احناف کی اکثریت ہے، عربوں میں مسلمانوں کی اکثریت عقائد میں متکلمین اشاعرہ کی پیرو ہے اور برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت متکلمین ما تریدیہ کی پیرو، اور متکلمین، چاہے وہ اشاعرہ ہوں یا ماتریدی، ان کا شمار اہل سنت و جماعت میں نہیں ہوتا۔ عقائد کے باب میں یہ احادیث آحاد کو نہیں مانتے اور صفات باری تعالیٰ سے متعلقہ تمام آیتوں میں تاویل کے قائل ہیں ۔ لہٰذا برصغیر کے مفسرین، فقہاء، ارباب تصوف اور دوسرے مصنفین کی کتابوں میں جہاں بھی اسلاف، یا اہل سنت و جماعت کے الفاظ ملیں اور ان کے حوالہ سے کوئی عقیدہ بیان کیا گیا ہو تو اس کو آنکھیں بند کر کے اہل کلام یا متکلمین کا عقیدہ سمجھنا چاہیے، سوائے ان مصنفین کے جن کا تعلق جماعت اہل حدیث سے ہو، لیکن موجود وقت میں اس جماعت سے وابستگی رکھنے والے بہت سے مصنفین، خطباء اور ارباب فکر و دانش بھی صحیح اسلامی عقائد سے واقف نہیں رہے ہیں ۔ مجھے یہ وضاحت اس لیے کرنی پڑی کہ اس کو سمجھے بغیر میری گفتگو سے خاطر خواہ استفادہ مشکل تھا، میں عقائد سے متعلقہ جن زبان زد اصطلاحوں کو بیان کرنے جا رہا ہوں وہ تمام تر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن القیم رحمہما اللہ کے افادات سے ماخوذ ہیں ۔ ۱۔ تفویض: یہ فَوَّضَ یُفَوِّضُ کا مصدر ہے، جس کے معنیٰ حوالہ کرنا، سونپنا، سپرد کرنا اور کسی معاملہ کو اپنے تصرف سے نکال کر دوسرے کے تصرف میں دینا، ہیں قرآن پاک میں ہے: ﴿فَسَتَذْکُرُوْنَ مَا اَقُوْلُ لَکُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِِلَی اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِo﴾ (المؤمن: ۴۴) ’’پس عنقریب تم وہ یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر رہا ہوں درحقیقت اللہ بندوں کو خوب اچھی طرح دیکھنے والا ہے۔‘‘ تفویض کا لفظ اپنے لغوی معنی سے زیادہ ایک عقیدہ بن چکا ہے جس کو ہر طبقہ اور ہر مسلک سے وابستہ علماء بکثرت استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہی اسلاف کا مسلک ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں مذکور اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ، چہرہ، آنکھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم ان کے معنیٰ اللہ کے سپرد کرتے ہیں ، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان الفاظ کے معنیٰ معلوم و معروف ہیں ، لیکن ان کی کیفیت اور صفت نامعلوم ہے اور یہی اسلاف کا مسلک ہے کہ وہ ان کے حقیقی معنیٰ مراد لیتے رہے ہیں اور ان کی کیفیت کے علم کو اللہ کے حوالہ اور سپرد کرتے رہے ہیں ، لہٰذا یہ دعویٰ جھوٹ