کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 357
طرح کی حدوں اور سمتوں سے اس کی تنزیہ لازمی اور فرض ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عَلْمًاo﴾ (طٰہٰ: ۱۱۰) ’’وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ علم سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘ لیکن جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کی ذاتی صفات کے قائل ہیں اور ان کو ان کے حقیقی معنوں میں لیتے اور ان سے اللہ تعالیٰ کو موصوف مانتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی کیفیت کا علم صرف اسی کو ہے، اسی طرح اس کے لیے وہ حد اور جہت اور سمت بھی مانتے ہیں جس طرح اس نے خود اپنے لیے ان کا اثبات کیا ہے اس لیے کہ اس بات پر ہمارا گہرا اور غیر متزلزل ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کرنا جانتا ہے اور اس نے اپنی جو صفات بیان فرمائی ہیں وہی حق ہیں اور انہیں معنوں میں ہیں جو ان کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتے ہیں اور انسانوں کی بنائی حدوں اور جہتوں سے اس کے منزہ اور پاک ہونے کے یہ معنیٰ قطعاً نہیں ہیں کہ وہ عرش پر موجود اور رونق افروز بھی نہیں اور ساری مخلوقات سے بلند بھی نہیں ہے، البتہ اس کے ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی کسی بھی صفت کی کیفیت اور حقیقت ہمیں معلوم نہیں ، اور عرش پر اس کا ہونا اور تمام مخلوق سے بلند ہونا بھی اس کی صفت ہے۔ اب میں اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق لوگوں میں پھیلی ہوئی اور گشت کرنے والی زبان زد بعض اصطلاحوں کا صحیح تعارف کرا دینا چاہتا ہوں تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ اس مسئلہ میں صحیح اور درست نقطۂ نظر کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ اس مسئلہ میں بھی ہمارا تمام تر اعتماد قرآن اور حدیث اور انہیں سے مستنبط ہونے والے احکام پر ہو گا۔ متکلمین اہل سنت و جماعت نہیں ہیں : اہل سنت و جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر ہیں اور اس سے سرمو انحراف نہیں کرتے، اسی طریقے پر تمام ائمہ حدیث اور تمام متقدمین ائمہ فقہ اور وہ لوگ بھی ہیں جن کا لقب اور پہچان اہل حدیث ہے یہ لوگ اس مسئلہ میں بے مثال اتفاق رکھتے ہیں دوسری صدی ہجری سے مسلمانوں میں جو فرقے پیدا ہوئے ان میں سے کوئی ایک فرقہ بھی عقائد اسلام اور اصول اسلام میں متفق الخیال نہیں رہا ہے؛ خوارج، معتزلہ، شیعہ اور متکلمین مسلمانوں میں شمار ہونے والے سب سے بڑے فرقے ہیں ، جن کا حال یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی فرقہ کے افراد کے درمیان ’’عقائد‘‘ کے بارے میں کبھی بھی اتفاق نہیں رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کی تعلیمات پر ایمان و عمل کے بجائے رائے اور قیاس پر ان کا اعتماد زیادہ رہا ہے۔ لیکن اہل سنت و جماعت کے درمیان صحابۂ کرام کے دور سے آج تک عقائد کے باب میں کبھی بھی کوئی اختلاف نہیں ہوا جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ سے ہر آمیزش اور ملاوٹ سے پاک خالص اسلامی تعلیمات کے پیرو رہے ہیں اور جو لوگ ان تعلیمات سے منحرف یا دور ہوئے بھی تو یا تو عقائد سے اپنی لاعلمی کی وجہ سے یا عملی کوتاہی کی وجہ سے