کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 356
زعم باطل میں اس کی تنزیہ اور پاکی بیان کرنے کی غرض سے قرآنی الفاظ کی جگہ استعمال کرتے ہو۔ ثالثاً: تمہارا یہ دعویٰ کہ ان الفاظ کو حقیقی معنوں میں لنیے سے مخلوق سے اللہ کی تشبیہ لازم آتی ہے اور اس سے اس کے لیے جسم، جگہ اور سمت و جہت وغیرہ لازم آتی ہے لزوم ما لا یلزم کے قبیل سے ہے ورنہ عالم واقعہ میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اب آئیے تفصیل کی طرف: ۱۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اپنے لیے نہ جسم کا اثبات کیا ہے اور نہ نفی کی ہے لہٰذا اس کے لیے جسم کا اثبات اور اس سے جسم کی نفی دونوں غیر قرآنی ہیں ، اور اگر بالفرض اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی تعبیروں سے حقیقی معنی مراد لینے سے ایسا کچھ لازم آتا ہے جو عقل پرستوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے حق میں درست نہیں ہے تو ہم ان سے کہیں گے کہ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ۔۔۔ ’’اپنے غصے میں مر مٹو‘‘ ہم تو کلام اللہ اور کلام الرسول کا وہی مطلب لیں گے جس پر اس کے الفاظ دلالت کرتے ہیں ۔ اب اگر تم یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایسی ذات نہیں رکھتا جس کی وہ صفات ہوں جو قرآن اور حدیث میں بیان کی گئی ہیں تو تمہارا یہ قول باطل، مردود اور غیر قرآنی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ بھی ہے، اس کے ہاتھ بھی ہیں ، آنکھیں بھی ہیں اور پاؤں بھی ہیں ۔ ۲۔ اگر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے چہرہ، ہاتھ، آنکھیں اور پاؤں ماننے کی صورت میں اس کے لیے جسم ماننا پڑتا ہے، تو ہم تم سے پوچھیں گے کہ جسم سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اگر جسم سے تمہاری مراد ایسا جسم ہے جو ہڈیوں ، گوشت اور خون وغیرہ سے مرکب ہے اور ہاتھ، اور پاؤں وغیرہ اس کے ایسے اعضاء ہیں جیسے ہمارے جسم کے اعضاء ہیں جو ہمارے جسموں سے جدا بھی ہو سکتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ اللہ کے حق میں ایسا تصور بھی کفر ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ، اس کی آنکھیں ہیں ، اس کے ہاتھ اور پاؤں بھی ہیں جو اس کی لازمی اور ازلی اور ابدی صفات ہیں جو اس سے جدا نہیں ہو سکتیں ، اور اپنے حقیقی معنوں میں ہی ہیں ، مگر مخلوق کے اعضاء کے مانند نہیں : لیس کمثلہ شیء۔ ۳۔ اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے، اس کے آنے اور اس کے نزول کو حقیقت پر محمول کرنے سے اس کے لیے حد، جہت اور جگہ وغیرہ لازم آتی ہے تو ہم تم سے پوچھیں گے کہ ان الفاظ سے تمہاری مراد کیا ہے؟ اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کو گھیرے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے اوپر اور سب سے بلند ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’ وہ کسی خاص جگہ محصور ہے‘‘تو یہ سب باطل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کو محیط ہے اور کوئی چیز اس کو محیط نہیں ہے وہ عرش اور غیر عرش سے بھی عظیم اور بڑا ہے، اس کی کرسی جو اس کے عرش کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے، آسمانوں اور زمین کو سموئے ہوئے ہے، تو پھر اس کا عرش کتنا بڑا ہو گا۔ لیکن اگر حد اور جہت وغیرہ سے تمہاری مراد ایسی حد، یا ایسی جہت یا سمت ہے جس سے انسان واقف ہیں تو اس