کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 353
لیکن مخلوق حادث ہے اس کو ایک مثال سے سمجھئے: اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے اندر سننے اور دیکھنے کی جو قدرت پہلے دن پیدا کر دی ہے وہ ایک ہے، لیکن جو چیزیں ہم دیکھتے ہیں اور جو آوازیں ہم سنتے ہیں ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس سے ہماری یہ صفات متاثر نہیں ہوتیں اور نہ ان کے تعدد سے ہماری ان صفات میں تعدد پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حر کی فعلی صفات قرآن میں : متکلمین اشاعرہ اور ماتریدیہ نے اللہ تعالیٰ کے ہر رات کے تیسرے پہر میں آسمان دنیا پر نزول کی خبر کا تو انکار کر دیا ہے، کیونکہ یہ خبر ’’حدیث واحد‘‘ میں دی گئی ہے اور ’’احادیث آحاد‘‘ سے ان کے نزدیک عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ مگر خود قرآن پاک میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے مجیٔ اور ’’اتیان‘‘ یعنی آنے کے افعال استعمال ہوئے ہیں ، چونکہ وہ قرآن کا انکار نہیں کر سکتے، اس لیے انہوں نے ان کی تاویل کی ہے ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منتقلی اور حرکت وغیرہ کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے اسی مناسبت سے میں نے ’’حر کی فعلی صفات‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ میں پہلے وہ آیتیں نقل کروں گا، پھر ان کی بکواس کا جواب دوں گا۔ ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہ ُفِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰئِکَۃُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرo﴾ (البقرۃ: ۲۱۰) ’’یہ لوگ صرف یہ انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ ان کے پاس بادلوں کے سائبانوں کے ساتھ آ جائے اور فرشتے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’یأتی‘‘ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور فعل اپنے حقیقی معنی ہی میں ہے اور اس سے اس کا آنا ہی مراد ہے اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ’’قرآن پاک میں اس طرح کے الفاظ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے، حرکت کرنے اور زوال کے معنی پر محمول کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ بدن اور جسم کی صفت ہے۔[1] تو یہ قرآن کی تاویل کے نام سے تحریف ہے، قرطبی نے ’’یأتی‘‘ کے حقیقی معنی کو اللہ کے حق میں ناقابل قبول بنانے کے لیے اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور زائل ہونے کا جو مفہوم شامل کر دیا ہے اور پھر اس کو جسم کی صفت قرار دیا ہے تو اس طرح انہوں نے متکلمین کے افکار کی ترجمانی کی ہے اور عبدالماجد دریا آبادی نے جو یہ فرمایا ہے کہ عقائد کا یہ اصول اور مسلم مسئلہ ہے کہ ذات باری کے لیے نہ محل ہے نہ ظرف، اس لیے اسلامی عقیدہ کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے لیے آنے یا جانے کے لیے کوئی معنی ہی نہیں ۔[2] تو یہ رازی کا عقیدہ ہے جو ان کے نزدیک امام المفسرین گزرے ہیں ورنہ حقیقت میں رازی ’’امام المحرفین‘‘ تھے دریا آبادی کو رازی کے بجائے اپنے پیر و مرشد تھانوی کی تفسیر کو حجت ماننا چاہیے تھا جو یہ فرما گئے ہیں : الہ تعالیٰ کے لیے
[1] قرطبی ص ۲۲ ج ۲ [2] ص ۳۹۴-۳۹۵ ج ۱