کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 352
تاویل کر کے مانتے ہیں ؛ مثلاً: اللہ تعالیٰ کی رضا سے ثواب اور سخط سے انتقام یا ارادۂ انتقام مراد لیتے ہیں اور بندوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اس دعویٰ میں انکار کرتے ہیں کہ محبت ہم جنسوں کے درمیان ہوتی ہے، لہٰذا اللہ، جو خالق ہے اور بندوں ، جو مخلوق ہیں کے درمیان محبت عقلاً ناممکن ہے۔ لیکن ہم ان کو جواب دیتے ہوئے عرض گزار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جو الفاظ آئے ہیں ، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اسمائے صفات سے متعلق ہوں یا عام امور سے متعلق وہ اپنے معنی، مفہوم اور مدلول میں بالکل واضح ہیں اور اس میں جہاں ، رضا، سخت اور کرہ وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہیں ثواب و عقاب اور انتقام وغیرہ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے اب اگر جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ رضا سے مراد ثواب ہے اور سخط سے مراد انتقام ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے براہ راست یہی الفاظ کیوں نہ استعمال فرمائے؟ رہے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی تمام فعلی صفات کے منکر ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ راضی ہوتا ہے، نہ غضب ناک ہوتا ہے اور نہ ناراض ہوتا ہے اور نہ محبت کرتا ہے اور نہ ناپسند کرتا ہے، اور ان کا دعویٰ ہے کہ رضا، ناراضگی، محبت اور کراہیت وغیرہ حادث ہیں اور جو چیز حادث ہو وہ صرف حادث کی صفت بن سکتی ہے اور اس کا صدور صرف حادث ہی سے ہو سکتا ہے۔ ازلی ذات کی صفت نہیں بن سکتی اور اس کا صدور ’’ازلی‘‘ سے نہیں ہو سکتا ہے۔ تو اس مغالطہ کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ: ۱۔ تمہاری یہ بات نص کے خلاف ہے اور جو بات نص کے خلاف ہو وہ باطل اور مسترد ہے۔ ۲۔ متکلمین میں اشاعرہ اللہ تعالیٰ کی سات صفات کے قائل ہیں : حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر اور کلام، اور ماتریدی مذکورہ صفات کے ساتھ آٹھویں صفت: تکوین کے بھی قائل ہیں ۔ اب اگر صفات میں تعدد سے موصوف میں تعدد لازم آتا ہے تو نعوذ باللہ ان کے عقیدے کی رو سے اللہ رب العالمین کی صفت ’’احدیث‘‘ کا ان کا عقیدہ صحیح نہیں ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی طرح اپنی صفات میں بھی ایک اور یکتا ہے اور خلق، معلوم اور مسموع وغیرہ میں تعدد اور تجدد کے باوجود وہ ازل سے زندہ ہے، خالق ہے، عالم ہے، سمیع ہے اور بصیر ہے، اور فعلی صفات سے بھی موصوف ہے، مگر اس کی یہ صفات اس کی مشیئت سے جڑی ہوئی ہیں ۔ رہے وہ جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کے قائل نہیں ہیں تو ان کے ’’الٰہ‘‘ کا کوئی وجود نہیں ہے، جیسا کہ میں اس کو مناسب موقع پر بیان کر چکا ہوں ۔ ۳۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات کے منکرین کا دعویٰ ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کو موصوف ماننے میں اس کے لیے نقص اور عیب لازم آتا ہے جو اس کی صفت کمال کے منافی ہے، کیونکہ یہ صفات حادث ہیں ۔ ان کے اس مغالطہ کا جواب ہے کہ فعل کے حادث ہونے سے فاعل کا حادیث ہونا لازم نہیں آتا۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ ازل سے خالق ہے،