کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 350
ہے وہ فرماتا ہے: کون مجھے پکارتا ہے کہ میں اس کی پکار کا جواب دوں ، کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اس کو عطا کروں اور کون مجھ سے مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں ۔‘‘ [1] یہ حدیث واحد ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کے لیے جامع لفظ حدیث یا سنت ہے، میں نے اس کتاب میں حدیث یا سنت کو ’’خبر‘‘ کہنے سے حتی الامکان احتراز کیا ہے اور مناسب مقام پر اس کا سبب بھی بیان کر چکا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتی اور فعلی صفات: ۱۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے اس کی ایسی صفات مراد ہیں جن سے وہ ہمیشہ سے موصوف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ان ذاتی صفات کی دو قسمیں ہیں ؛ معنوی اورخبری۔ اس کی معنوی صفات میں حیات، علم، قدرت اور حکمت وغیرہ داخل ہیں ، اور خبری صفات میں اس کے لیے ہاتھ، چہرہ اور آنکھیں وغیرہ داخل ہیں ان کو خبری صفات اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ان کا علم ہمیں اللہ و رسول کے خبر دینے سے ہوا ہے۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات وہ ہیں جو اس کی مشیئت سے متعلق ہیں ، ان میں سے کچھ کا سبب تو معلوم ہے، جیسے رضا، -رضا مندی-، سَخَط -ناراضگی-، غضب -غضب ناکی- وغیرہ۔ جن آیات میں یہ صفات بیان ہوئی ہیں ان میں ان کے اسباب بھی بیان کر دیے گئے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ زمر: ۷، سورۂ بقرہ: ۶۱، اور سورۂ آل عمران: ۱۶۲) اور کچھ فعلی صفات ایسی ہیں جن کا سبب معلوم نہیں ، جیسے اللہ تعالیٰ کا ہر رات میں آسمانِ دنیا پر اترنا۔ اللہ کی اس صفت کا ذکر قرآن میں نہیں آیا ہے، صرف حدیث میں آیا ہے اور یہ حدیث، حدیث واحد ہے اور اس میں جو خبر دی گئی ہے وہ ہمارے عقیدے سے متعلق ہے اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں : (۱) حدیث واحد سے قرآن پر اضافہ شرعی حیثیت رکھتا ہے۔ (۲) حدیث واحد سے بھی عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ ہر رات اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر نزول کا عقیدہ اپنے حکم میں قرآن میں بیان کردہ عقائد کے مانند ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ (النساء: ۸۰) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملنے والے ہر امر دینی کی تعمیل کا حکم دیا ہے۔ (الحشر: ۷) رات کے تیسرے پہر میں اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر اترنے کی خبر کا انکار قرآن کا انکار ہے، کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کی دی ہوئی خبر کی تصدیق قرآنی ہے۔
[1] بخاری ۱۱۴۵، مسلم ۷۵۸-۱۶۸