کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 35
سے کوئی حدیث بیان کرتے وقت کسی کام کا حکم دیتے وقت کسی کام سے منع کرتے وقت اور کسی صحابی کے کسی سوال کا جواب دیتے وقت، نہ صحابہ کرام میں سے خاص افراد کا انتخاب فرماتے، اور نہ یہ شرط لگاتے کہ آپ کا وہ ارشاد، وہ حکم اور وہ جواب ایک شخص نہیں ۔ دو اشخاص نہیں ، بلکہ تین اور ان سے زیادہ سنیں ، تاکہ دوسروں کے نزدیک آپ کا وہ ارشاد، وہ حکم اور وہ جواب قابل تصدیق اور واجب التعمیل ہو، اور اگر آپ کا وہ ارشاد کسی عقیدے یا اصولی مسئلہ سے متعلق ہو تو اس کو سننے والے اور بیان کرنے والے جم غفیر ہوں جن کا اصطلاحی نام ’’متواتر‘‘ ہے، ورنہ آپ کا وہ ارشاد نا قابل عمل ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی صحابی کو کوئی حکم دے کر کسی جگہ یا کسی قبیلے میں روانہ فرماتے تو اس کے ساتھ اس کی توثیق اور تائید کے لیے مزید دو یا تین صحابیوں کو نہیں بھیجتے تھے، بلکہ جس صحابی کو اس کا مکلف بناتے اس کو تنہا بھیجتے، اس لیے کہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ وہ صحابی نہ تو آپ کے حکم میں کوئی ردو بدل کر سکتا ہے اور نہ اس کا تنہا ہونا اور فرد واحد ہونا اس حکم کے حکم نبوی ہونے کو مشکوک بنا سکتا ہے، پھر وہ صحابی اپنے مشن پر تنہا ہی جاتا اور مرسل الیہ افراد یا قبیلے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پہنچاتا، اور لوگ اس خبر اور اس کے ذریعہ ملنے والے حکم کو یہ کہہ کر رد نہ کرتے کہ تم فرد واحد ہو، لہٰذا تمہاری بات کا کوئی اعتبار نہیں ، بلکہ اس کی زبان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد سنتے اور ان کو آپ کا جو حکم ملتا اس کو صحیح مان کر اس کو واجب العمل سمجھتے۔ اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف شہروں میں تبلیغ اسلام یا اسلامی احکام کی تنفیذ کے لیے اپنے ’’عمال‘‘ مقرر فرمائے تو ہر جگہ کے لیے صرف ایک ہی شخص کو ’’عامل‘‘ یا امیر اور گورنر بنا کر بھیجا جو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے حوالہ سے دین کے احکام سناتا اور لوگ انہیں اللہ اور رسول کے احکام سمجھ کر ہی ان پر عمل کرتے۔ معلوم ہوا کہ تنہا ایک شخص کی خبر اگر وہ ثقہ اور قابل اعتماد ہو، عدالت سے موصوف ہو فاسق نہ ہو، یقینی اور واجب العمل ہے، قطع نظر اس کے کہ اس خبر کا تعلق عقائد سے ہے یا اعمال سے، اصول سے ہے یا فروع سے۔ حکومت الٰہیہ کے نمایندے: آگے ان شاء اللہ میں ’’خبر واحد‘‘ یا ’’حدیث واحد‘‘ کے دلیل وحجت ہونے کے جو دلائل دوں گا ان سے یہ دعوے ریت کا تودہ ثابت ہوں گے کہ جن اخبار آحاد کو حجت مانا گیا ہے وہ ایسے اخبار تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابہ کرام نے لوگوں کو پہنچائے تھے، یعنی انہوں نے یہ فرائض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کی حیثیت سے ادا کیے تھے۔ ڈاکٹر برنی فرماتے ہیں : ’’محترم عابدی صاحب نے کچھ واقعات بھی دلیل کے طور پر پیش کیے ہیں ۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کو کوئی حکم دے کر کسی قبیلے کی طرف بھیجتے تھے۔ یا تبلیغ اسلام اور اسلامی احکام کی تنفیذ کے لیے ایک فرد کو روانہ کرتے یہ ساری مثالیں درست ہیں مگر نتیجہ حسب سابق غلط برآمد کیا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھیجے