کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 349
کو منکرات سے باز رہنے کی دعوت دینا، مثلاً: زنا نہ کرو، چوری نہ کرو، شراب نوشی نہ کرو، بلاحق کسی کو ہلاک مت کرو، اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو، رشتہ داروں سے قطع رحمی نہ کرو، جھوٹ مت بولو کاروبار تجارت اور لین دین اور معاملات میں دھوکا دہی سے باز رہو، لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو نشانہ مت بناؤ وغیرہ خیر ہی خیر ہے جو سراسر دین ہے۔ اس دعوت الی الخیر کے بعد نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا اجمال کی تفصیل بھی ہے اور اس دعوت الی الخیر کی اہمیت کا اظہار بھی، کیونکہ حکم کا مرحلہ دعوت کے بعد آتا ہے اس آیت کی روشنی میں ہر مسلمان کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ خیر کی دعوت دے۔ کسی ایک مسلمان کے نزدیک بھی یہ بات صحیح نہیں ہو گی کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر جس معروف کا حکم دینے اور جس منکر سے روکنے کو فرض قرار دیا ہے وہ وہی معروف و منکر ہیں جن کو ’’انسان ابتداء سے پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے۔ کیونکہ اس دعوے کو درست مان لینے سے تمام رسولوں کی بعثت اور ان پر کتابوں کا نزول فعل عبث قرار پاتا ہے۔ میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ پورا دین معروف و منکر سے عبارت ہے یا اوامر و نواہی یا افعل و لا تفعل سے عبارت ہے اسی وجہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کا اہم اور بنیادی فریضہ ہے۔ مومن کی پہچان اور اس کی لازمی صفت ہے۔ اہل ایمان کے علاوہ تمام انبیاء اور رسول بھی اس کے مکلف رہے ہیں ۔ اگر معروف و منکر کو ہر انسان فطرتاً اور شعوراً جانتا اور مانتا ہے تو پھر منافقین کے بارے میں یہ کیوں فرمایا گیا کہ وہ منکر کا حکم دیتے ہیں اور معروف سے روکتے ہیں ۔ پیدائشی طور پر اور فطرتاً تو وہ بھی انسان ہی ہیں ؟!! اگر معروف و منکر کی معرفت فطرت انسانی میں ودیعت ہے تو پھر تو پوری دنیا کے انسانوں کو قطع نظر اس کے کہ ان کا دین و مذہب کیا ہے یہ مہم دل و جان سے ادا کرنی چاہیے، مگر امر واقعہ اس کے برعکس ہے اور یہ فریضہ انجام دینے والے ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں اور اکثرت کی نظروں میں ناپسندیدہ بھی۔ حدیث واحد سے قرآن پر اضافے کی مثالیں اس مسئلہ پر اصولی بحث ذرا طویل ہو گئی جو ضروری تھی۔ حدیث یا سنت کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا ہے اس کا تقاضا تھا کہ منصب رسالت کے ضروری پہلوؤں کو اتنا واضح کر دیا جائے کہ اس بحث کو سمجھنے کے لیے ذہن تیار ہو جائے۔ پہلی مثال، اللہ تعالیٰ کا رات کے تیسرے پہر میں آسمانِ دنیا پر نزول: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((ینزل ربنا تبارک و تعالی کل لیلۃ إلی السماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الآخر یقول: من یدعونی فأستجیب لہ، من یسألنی فأعطیہ، من یستغفرنی فأغفرلہ)) ’’ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات اس وقت آسمان دنیا پر اترتا ہے جب اس کا آخری تیسرا پہر باقی رہ جاتا