کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 348
’’منافق مرد اور منافق عورتوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں ۔‘‘ معروف و منکر کیا ہے؟ معروف وہ نہیں ہے جس کو فطرت جانتی اور پہچانتی ہو اور جو لوگوں میں معروف و مانوس ہو۔ اسی طرح منکر وہ نہیں ہے جو لوگوں میں غیر معروف، غیر مانوس اور اجنبی ہو۔ بلکہ معروف وہ ہے جس کا اللہ و رسول نے حکم دیا ہو۔ جو شرعاً معروف ہو، شرع نے پہلے سے موجود جس چیز کو برقرار رکھا ہو۔ اس طرح صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود اور رب ماننا، ہر عیب و نقص سے اس کو پاک ماننا اور ہر صفت کمال سے اس کو موصوف ماننا معروف ہے، جن غیبی امور کی اللہ و رسول نے خبر دی ہے ان کو حق ماننا معروف ہے۔ نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، روزہ رکھنا اور حج کرنا معروف ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، عام انسانوں کے ساتھ حسن معاملہ کرنا، اور اعلیٰ اخلاقی صفات سے موصوف ہونا، محتاجوں کی مدد کرنا، کمزوروں کو سہارا دینا اور مظلوموں کی حمایت کرنا وغیرہ معروف ہے۔ اسی طرح منکر وہ ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، کتاب و سنت میں منصوص طریقوں کے علاوہ کسی اور طریقے سے اللہ کی عبادت کرنا، زنا، چوری، شراب نوشی، ناحق قتل، لوگوں کی حرمتوں اور املاک پر دست درازی، جھوٹ، غیبت اور لوگوں کی عیب جوئی وغیرہ منکر ہیں ۔ مذکورہ بالا امور میں سے بعض کا معروف و منکر ہونا فطرت کو بھی معلوم ہے، مگر یہ علم ناقص اور مبہم ہے شریعت نے اس کو واضح کر دیا ہے ان میں سے کسی بھی چیز کی عقل یا فطرت مخالفت نہیں کرتی۔ معروف و منکر قرآنی اصطلاح ہے جس میں پورا دین داخل ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی تعبیر خیر سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴾ (آل عمران: ۱۰۴) ’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کا ہونا لازمی ہے جو نیکی کی طرف دعوت دیں اور اچھے کام کا حکم دیں اور برے کام سے روکیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ ذرا اسلوب قرآنی پر غور فرمائیے، دعوت الی الخیر کو مقدم رکھا، کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی یہی بنیاد ہے؛ شریعت نے جن باتوں کا حکم دیا ہے اور جن باتوں سے منع کیا ہے وہ خیر ہی خیر ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے خیر، مثلاً آپ کا دوسروں کو طاعت الٰہی اور طاعت رسول کی دعوت دینا، اقامت صلاۃ، زکوٰۃ کی ادائیگی، روزہ رکھنے اور حج کرنے، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور بیع و شراء میں امانت داری اور صدق گوئی کی دعوت وغیرہ دین ہے، اسی طرح لوگوں