کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 347
ان کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ معروف و منکر کا ایمان و اخلاق کے بنیادی حقائق سے تعلق ہے، لیکن ان کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ معروف صرف وہ باتیں ہیں جن کو فطرت ’’خیر‘‘ کی حیثیت سے جانتی اور پہچانتی ہے اور ان کو پسند بھی کرتی ہے اور جن باتوں سے فطرت ابا کرتی ہے اور ان کو برا جانتی ہے وہ منکر ہیں ، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ شریعت نے جن باتوں کو معروف کہا ہے اور معروف سے تعبیر کیا ہے جب ان کو صحیح الفطرت اور سلیم الفطرت انسان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا وہ ان کو سنتا ہے یا عملی طور پر دیکھتا ہے تو ان کو پسند کرتا ہے، ان سے اجنبیت محسوس نہیں کرتا اور اس کی فطرت سلیمہ ان سے نفرت اور ابا نہیں کرتی، اور اس کے برعکس جو چیزیں ہیں وہ منکر ہیں ۔
غامدی صاحب اور ان کے ہمنواؤں اور کتاب و سنت کو ماخذ رشد و ہدایت ماننے والے ہم مسلمانوں کے درمیان اختلافِ فکر و نظر اس نقطہ سے شروع ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک فطرت یا عقل ہی خیر و شر کے درمیان تمیز کرتی ہے۔ تنہا وہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کیا حق ہے اور کیا باطل، جبکہ ہمارا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ عقل یا فطرت کی یہ صلاحیت اور اہلیت محدود بھی ہے اور مبہم بھی اور وہ توحید و شرک، خیر و شر اور معروف و منکر کے بارے میں جب شریعت کے احکام سنتی ہے تو ان کی مخالفت نہیں کرتی، بلکہ ان کو صحیح اور درست مانتی ہے وہ از خود توحید و شرک، خیر و شر اور معروف و منکر کی تفصیلات جاننے سے عاجز اور قاصر ہے۔
پھر غامدی صاحب اور ان کے ہم نواؤں کے نزدیک معروف و منکر کا تعلق نہایت محدود معنیٰ میں صرف فضائل اخلاق سے ہے، جبکہ ہمارے نزدیک معروف و منکر کا تعلق دین کے تمام امور سے ہے، ایمانیات سے لے کر آداب معاشرت تک دین کا ہر شعبہ اس میں داخل ہے، ایسی صورت میں یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے کہ ’’انسان ابتداء ہی سے معروف و منکر، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے۔‘‘ [1]
ان کا یہ دعویٰ ان کے اس دعویٰ کی طرح ہے کہ ’’عرب ملتِ ابراہیمی کے احکام؛ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سے پوری طرح واقف تھے، بلکہ بڑی حد تک ان پر عامل تھے‘‘ اگر یہی حق ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ اور دوسرے عربوں کے درمیان لڑائی کس بات پر تھی جس کے ذکر سے قرآن پاک بھرا پڑا ہے؟
غامدی ایمانیات کا ذکر بھول کر بھی نہیں کرتے اور توحید کا لفظ ان کے قلم کی نوک پر آتا ہی نہیں ، ایسا کرنے سے ان کا سارا بھانڈا پھوٹ جاتا، جبکہ معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا اہل ایمان کی صفت ہے، منافقین جو انسانوں کی بدترین صنف کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی صفت اہل ایمان سے مختلف ہے۔ ارشاد الٰہی:
﴿اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُتٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ﴾ (التوبۃ: ۶۷)
[1] ص ۵۵