کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 346
واقفیت چاہی تاکہ اس کی پیروی اختیار کر لیں ، لیکن اس یہودی عالم نے یہودیت کی پیروی کو اللہ کے غضب کا موجب قرار دیتے ہوئے انہیں ’’حنیف‘‘ بننے کا مشورہ دیا اور جب انہوں نے اس سے حنیف کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا ’’دین ابراہیم‘‘[1]
اسی روایت میں ہے کہ جب وہ شام سے نکلے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا: ((اللّٰہم إنی أشہد أنی علی دین إبراہیم)) ’’اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں ۔‘‘
یعنی ان کو مکی ہونے کی وجہ سے دین ابراہیم یا دین حنیف کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا بلکہ یہودی عالم سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کے دین کا نام حنیف ہے۔ جبکہ ان کا تعلق قریش کے معزز گھرانے بنو مخزوم سے تھا۔ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی اور مشہور صحابی سعید کے والد ماجد تھے۔
ان کی نماز کا حال اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے، وہ فرماتی ہیں :
’’میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا ہے وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے اور کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے کہہ رہے تھے: اے معشر قریش! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں زید بن عمرو کی جان ہے، میرے علاوہ تم میں سے کوئی دین ابراہیم پر نہیں ہے، پھر کہتے: اے اللہ! اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ عبادت کا کون سا طریقہ تجھے محبوب ہے تو میں اسی کے مطابق تیری عبادت کرتا، لیکن وہ مجھے نہیں معلوم ہے۔ پھر وہ اپنی ہتھیلی پر سجدہ کرتے۔‘‘[2]
غور فرمائیے قریش کے معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک ’’موحد حنیف‘‘ جس نے دین حق کی تلاش میں شام کا پر مشقت سفر کیا وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نماز کا صحیح طریقہ نہیں معلوم کر سکا، بلکہ اسے دین ابراہیم کا نام تک ایک یہودی عالم سے معلوم ہوا۔ اس پر بھی غامدی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ ملت ابراہیم کے احکام سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک ان پر عامل تھے، کیا اس سے بڑی کوئی غلط بیانی ہو سکتی ہے؟
زید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا۔ مگر آپ کی بعثت سے پہلے توحید ہی پر ان کی وفات ہوئی۔
معروف و منکر:
غامدی صاحب نے اسلام کی نہایت اہم اصطلاح معروف و منکر کو ایمان و اخلاق کے بنیادی حقائق میں شمار کیا ہے۔ فرماتے ہیں : یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور انہیں برا سمجھتی ہے، قرآن ان کی کوئی جامع و مانع فہرست نہیں پیش کرتا، بلکہ اس حقیقت کو مان کر کہ انسان ابتداء ہی سے معروف و منکر، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے، اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر چھوڑ دے۔[3]
[1] بخاری ۳۸۲۷
[2] ابن ہشام ص ۲۲۵ ج ۱
[3] ص ۵۴-۵۵