کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 345
’’درحقیقت تمہاری طرف یہ وحی کی گئی ہے اور ان کی طرف جو تم سے پہلے تھے کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارا عمل غارت ہو جائے گا اور تم یقینی طور پر نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن مشرکین کو ان کی بدعملیوں کی سزا دی جائے گی۔ غامدی کے استاد مولانا اصلاحی تحریر فرماتے ہیں : ’’یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ دین کے عقائد میں جس طرح توحید کو سب پر تقدم حاصل ہے اسی طرح اعمال میں نماز کو سب پر تقدم حاصل ہے، ہر نبی نے سب سے پہلے اسی عمل کی دعوت دی ہے اور اس کے اہتمام اور اس کے ترک پر دین کو منحصر بتایا ہے۔‘‘[1] سورۂ مدثر کی مذکورہ بالا آیتوں سے معلوم ہوا کہ نماز، انفاق اور یوم جزا پر ایمان وغیرہ ’’ملت ابراہیم‘‘ کے خاص احکام نہیں تھے، بلکہ ہر نبی کی شریعت میں یہ احکام موجود تھے؟!! ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ: صحیح مسلم میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے سفر مکہ اور ایمان لانے کا جو طویل واقعہ بیان ہوا ہے اس میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات حاصل کرنے سے تین برس پہلے ہی سے وہ عشاء کی نماز پڑھتے تھے نہ اس نماز کی کوئی کیفیت بیان ہوئی اور نہ اس قبلہ ہی کا کوئی بیان ہے جس کی طرف رخ کر کے وہ نماز پڑھتے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرف رخ کرتے تھے تو فرمایا: ’’أتوجہ حیث یوجہنی ربی عز و جل‘‘ ’’میں ادھر رخ کرتا تھا جدھر میرا رب عز و جل میرا رخ پھیرتا تھا۔‘‘ البتہ انہوں نے یہ صراحت کی ہے کہ وہ نماز اللہ کے لیے پڑھتے تھے۔ جو ان کے موحد ہونے کی واضح دلیل ہے۔ حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ یہ واقعہ بعثت سے پہلے کا ہے اور نہ اس میں ایسا ہی کوئی اشارہ ہے کہ وہ ملت ابراہیمی اور اس کے احکام سے واقف تھے۔ یہ غامدی صاحب کا اپنا استنتاج ہے۔ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ ایک انسان توحید کی روشنی تو فطرت سے پا سکتا ہے اور فطرت ہی کے تقاضے سے شرک سے کنارہ کش ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صحیح اور مطلوبہ عبادت کا طریقہ فطرت سے نہیں معلوم کر سکتا اور نہ فطرت سے یہ جان سکتا ہے کہ معروف کیا ہے اور منکر کیا اور کن چیزوں کا کھانا اور پینا حلال ہے اور کن کا حرام؟ وغیرہ، ورنہ اللہ تعالیٰ اتنی بڑی تعداد میں اپنے رسول نہ بھیجتا اور لوگوں کو ان کی فطرت پر چھوڑ دیتا۔ زید بن نفیل رضی اللہ عنہ کا واقعہ: ابو ذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ تفصیلی اور زیادہ سبق آموز واقعہ زید بن نُفیل رضی اللہ عنہ کا ہے جو حقیقی معنوں میں موحد تھے شرک سے ان کی نفرت اور توحید سے ان کا لگاؤ فطری تھا۔ صحیح روایات کے مطابق انہوں نے دین حق کی تلاش میں شام کا سفر بھی کیا جس میں پہلے ان کی ملاقات ایک یہودی عالم سے ہوئی اور انہوں نے اس سے اس کے دین کے بارے میں
[1] تدبر قرآن ، ص ۶۳ ج ۸