کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 344
توحید کی طرح اللہ کی کوئی شریعت بھی نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے خالی نہیں تھی۔ لہٰذا ملت ابراہیم کو شریعت ابراہیم قرار دینا اور مذکورہ عبادات کو ملت ابراہیم کے احکام قرار دینا حد درجہ گمراہ کن غلط بیانی ہے۔ آپ نے صرف ایک فرد -ابو ذر رضی اللہ عنہ - کے قبل از بعثت پابند نماز ہونے سے قرآن کے مخاطب اہل مکہ اور جزیرۂ عرب کے دوسرے لوگوں کے ملت ابراہیم کے احکام سے پوری طرح واقف ہونے اور ان پر عمل بھی کرنے پر جو استدلال کیا ہے وہ آپ کی قرآن فہمی اور قرآنی آیات پر ’’ڈیرے‘‘ ڈالنے کے آپ کے دعوے کا مذاق اڑا رہا ہے۔ نماز جو ایمانیات کے بعد تمام ارکان اسلام کے سرفہرست ہے اور جس سے اللہ کی کوئی بھی شریعت خالی نہیں رہی ہے اس نماز کو قرآن کے مخاطب کتنا سمجھتے تھے؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک میں ملاحظہ فرمائیے: ﴿وَ مَا کَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَالْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّ تَصْدِیَۃً فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo﴾ (الانفال: ۳۵) ’’اور ان کی نماز بیت -اللہ- کے پاس محض سیٹیاں بجانے اور تالیاں پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوتی تھی، سو چکھو عذاب بسبب اپنے کفر کے۔‘‘ اور ذرا ایک قدم اور آگے بڑھائیے اور اپنے اس دعوے کا جواب بھی سنتے چلئے کہ ’’وہ ان پر -ملت ابراہیم کے احکام پر- بڑی حد تک عامل تھے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌo اِِلَّا اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِo فِیْ جَنّٰتٍ یَتَسَآئَ لُوْنَo عَنِ الْمُجْرِمِیْنَo مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَo قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَo وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَo وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَائِضِیْنَo وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِo حَتّٰی اَتٰـنَا الْیَقِیْنُo﴾ (المدثر: ۳۸-۴۷) ’’ہر شخص اس کے بدلے جو اس نے کمایا ہے گروی رکھا ہوا ہے، سوائے دائیں والوں کے وہ باغوں میں رہ کر مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے، تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی وہ جواب دیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے اور نہ ہم مسکین کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم فضول باتیں کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو کر فضول باتیں کیا کرتے تھے اور ہم یوم جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک یقین ہمارے پاس آ گیا۔‘‘ میں یہ بات کرتا آ رہا ہوں کہ مشرک کا کوئی عمل معتبر نہیں ہے، مگر یہ آیتیں یہ بتا رہی ہیں کہ ان کی بدعملیاں شمار ہو رہی ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ مشرک کے نیک اعمال کا کوئی اعتبار نہیں ۔ قرآن اس کی صراحت کرتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اُوحِیَ اِِلَیْکَ وَاِِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَo﴾ (الزمر: ۶۵)