کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 343
پر مبنی ہے، لہٰذا اس کو معلوم کرنے کا ذریعہ قرآن نہیں یا صرف قرآن نہیں ، بلکہ دین فطرت، سنت ابراہیمی اور نبیوں کے صحائف ہیں ۔ ان کے دین میں حدیث کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ملت ابراہیمی کی اپنی غلط اور قرآن سے متصادم تشریح کی بنیاد پر انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ سب اسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک ان پر عامل تھے، سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے اس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں بعثت سے قبل اہل مکہ اور دوسرے عربوں کی جو دینی، اخلاقی اور اجتماعی حالت بیان فرمائی ہے اس کی ایک جھلک حوالوں کے ساتھ اوپر دکھائی جا چکی ہے اس کو اپنے سامنے رکھئے اور پھر موصوف کے اس دعوے پر غور کیجیے تو آپ کو دونوں کا تضاد معلوم ہو جائے گا۔ پھر آپ آزاد ہیں ، چاہیں تو علام الغیوب کی خبر کو مانیں یا غامدی صاحب کے دعوے کو۔ غامدی صاحب نے جن اعمال کو ’’ملت ابراہیم‘‘ کے احکام کا نام دیا ہے ان سے حج کے علاوہ کسی رسول کی شریعت خالی نہیں تھی، کیونکہ یہ ارکان اسلام ہیں جن کے سرفہرست توحید ہے جس کا ذکر صاحب میزان بھول کر بھی نہیں کرتے، جبکہ پورے قرآن پاک میں جہاں بھی اس ملت کا ذکر آیا ہے تو اس کے ساتھ دو باتوں کا ضرور ذکر آیا ہے: ۱۔ ابراہیم علیہ السلام کا مشرکوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ۲۔ وہ ہر ملت سے منہ موڑ کر ملت توحید کے لیے یکسو ہو چکے تھے۔ میں نے اوپر ملت اور دین دونوں کی وضاحت قرآنی آیات کی روشنی میں کر دی ہے اور یہ دکھا دیا ہے کہ پورے قرآن پاک میں ابراہیم علیہ السلام کی طرف اضافت کے ساتھ یہ لفظ صرف ملت توحید کے معنی میں آیا ہے جو شریعت کے معنی میں نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کو خاص شریعت دی تھی جو اس کے زمانے اور اس زمانے کے لوگوں کے لیے مناسب تھی: ﴿لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا﴾ (المائدۃ: ۴۸) لیکن توحید ہر شریعت کا بنیادی رکن تھی۔ ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo﴾ (الانبیاء: ۲۵) ’’اور ہم نے تم سے پہلے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا، مگر اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری ہی عبادت کرو۔‘‘