کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 342
اور صالح بادشاہ کو رونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس واقعہ کی راوی ام سلمہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا ہیں جو واقعہ کی شاہد تھیں اور اس کی روایت امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ مسند میں حافظ ہیثمی نے مجمع میں ابن ہشام نے سیرت میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں کی ہے۔[1] دعوت حق اور اہل مکہ کا رد عمل: جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو دعوت حق دی تو اس کے جواب میں انہوں نے جو طرز عمل اختیار کیا اس کے ذکر سے قرآنِ پاک بھرا پڑا ہے وہ اہل مکہ جن کی زبانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح خوانی سے نہیں تھکتی تھیں ، جنہوں نے آپ کو صادق و امین کا لقب دے رکھا تھا، آپ کی دعوت سنتے ہی آپ کے دشمن بن گئے اور آپ پر الزامات لگانے لگے اور بعد میں آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو جو ایذائیں دیں وہ قرآن پاک میں مختلف مواقع پر ثبت ہیں ۔ کیا بقول غامدی یہ لوگ دین ابراہیمی کے وارث حقیقی اور اس کے احکام کے محافظ نہیں تھے۔ پھر انہوں نے یہ معاندانہ روش کیوں اختیار کی اور اپنے دلوں کی آواز اور فطرت کی پکار سن کر بھیڑئیے کیوں بن گئے ان کو تو اپنے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کے دین کے احکام سن کر خوش ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح تو ان کی دیرینہ آرزو پوری وہ رہی تھی؟!! زمانہ فترت کے عقائد و اعمال: میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ توحید فطرت کی آواز ہے، لہٰذا زمانہ ’’فترت‘‘ کا انسان توحید کے بارے میں جواب دہ ہے فترت سے مراد دو رسولوں کے درمیان کا زمانہ ہے جب سابق رسول کی تعلیمات مٹ چکی ہوں ۔ دلوں کی بیماریاں سب سے پہلے توحید پر حملہ آور ہوتی ہیں اور توحید میں فتور اور بگاڑ کے بعد اعمال بگڑنا شروع ہوتے ہیں اسی لیے ہر رسول کی دعوت توحید سے شروع ہوتی تھی۔ توحید فطرت کی آواز ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر ربوبیت کا تقاضا بھی ہے جس کے قائل مشرکین بھی رہے ہیں قرآن نے ربوبیت کی دعوت نہیں دی ہے، بلکہ اس کو ’’توحید الوہیت‘‘ کی دلیل بنا کر پیش کیا ہے، ربوبیت کے دلائل اور مظاہر سے کائنات کا ذرہ ذرہ بھرا ہوا ہے۔ غامدی مغالطہ دینے اور رائی کو پہاڑ بنانے میں بڑے ماہر ہیں ۔ انہوں نے دین ابراہیم کے امتیازی پہلو ’’توحید‘‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ انہوں نے بعثت سے پہلے اور اس سے متصل زمانہ میں موجود انگلیوں پر گنے جانے والے بعض لوگوں کی نماز روزے سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ دین ابراہیم موجود تھا، اور لوگ اس پر عمل پیرا تھے، پھر اس سے اپنا یہ باطل ’’نظریہ‘‘ بنایا ہے کہ انسان فطرت کے ذریعہ صحیح اور غلط اعمال جان سکتا ہے، معاشرتی آداب و رسوم بنا سکتا ہے۔ کیا کھائے اور کیا پئے ان کا تعین کر سکتا ہے وغیرہ اور چونکہ ان کی من گھڑت سنت جو قرآن پر مقدم ہے، فطرت ہی
[1] مسند احمد، نمبر ۱۷۴۰۔مجمع ، ص ۲۴-۲۷ ج ۶۔ ابن ہشام ، ص ۳۳۵-۳۳۶ ج ۱۔ دلائل النبوۃ، ص ۳۰۱-۳۰۴ ج ۲۔المعجم الکبیر ، نمبر ۱۴۷۹۔