کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 341
ترجمانی کرتا رہا ہو گا؟ بتانے کی ضروریت نہیں ، البتہ قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مزدلفہ میں اور منیٰ میں اپنے باپ دادا کی منقبت میں قصیدے گاتے تھے۔ یعنی معاملہ صرف چند بدعتوں کا نہیں تھا، بلکہ پورے حج کی کایا پلٹ کا تھا۔ انہوں نے بعثت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جس حج کا بخاری کے حوالہ سے ذکر کیا ہے وہ بخاری میں نہیں سیرت ابن ہشام میں ہے۔[1]جس کی روایت علی متقی نے کنز العمال میں طبرانی کی المعجم الکبیر کے حوالہ سے کی ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں : جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ((لقد رأیت رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم ، قبل أن ینزل علیہ الوحی، و إنہ واقف علی بعیر لہ بعرفات مع الناس من بین قومہ حتی یدفع معہم منہا توفیقا من اللہ)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی سے پہلے عرفات میں اپنے اونٹ پر لوگوں کے ساتھ وقوف کرتے دیکھا ہے، آپ اپنی قوم کے لوگوں کے درمیان تھے اور اللہ کی توفیق سے ان کے ساتھ عرفات سے افاضہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘ اس روایت سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی روایات کے برعکس عرفات میں وقوف فرمایا تھا۔ یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ بعثت سے قبل بھی آپ کی زندگی شرک سے پاک تھی اور آپ حسن اخلاق سے موصوف تھے، مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ سنت ابراہیمی سے لوگ نہ صرف واقف تھے، بلکہ اس پر عمل بھی کرتے تھے، قرآن کی تکذیب ہے۔ دراصل قرآن کے مطابق مشرکین مکہ اور دوسرے عرب دین ابراہیمی سے کوسوں دور تھے شریعت ابراہیمی نے جن مکارم اخلاق کی تعلیم دی تھی ان سے بھی مشرکین کو کوئی واسطہ نہیں تھا، ان میں گناہوں کی بھرمار تھی وہ سر سے پاؤں تک بت پرستی میں غرق تھے۔ اہل مکہ اور دوسرے عربوں میں بت پرستی کے نتیجے میں جو اجتماعی حالات پیدا ہو گئے تھے انہوں نے فطرت کو مسخ کر ڈالا تھا اور ان کی اخلاقی پستی اور انحطاط نے ان کو رذائل کے ارتکاب کا عادی، بلکہ عاشق بنا دیا تھا، شراب نوشی، جوئے بازی، لا تعداد عورتوں سے شادیاں اور عورتوں پر ناروا ظلم، فقر کے خوف یا فقر کے باعث بچوں کا قتل، جھوٹی عار، غیرت اور شرم کے پردے میں بچیوں کو زندہ درگور کر دینا، اور معمولی معمولی اسباب پر جنگ و جدال ان کی پہچان بن گیا تھا ان کی ان برائیوں اور رذالتوں کا قرآن میں جگہ جگہ ذکر آیا ہے اور ان کی اس دینی، اخلاقی اور اجتماعی حالت کی سچی تصویر اس تقریر میں دیکھی جا سکتی ہے جو جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے شاہ حبش نجاشی کے دربار میں کی تھی اور جس نے اس رحم دل
[1] ص ۲۰۴ ج ۱، المجعم الکبیر ، نمبر ۱۲۶۳۲