کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 34
رہے منکرین حدیث تو ان کی کتابوں میں حدیث متواتر کی ’’رٹ‘‘ ان کی بڑ کے سوا کچھ نہیں وہ تو دوسروں کے خرمن کے خوشہ چین ہیں ، ورنہ ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہاتھی کی دم کدہر ہوتی ہے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک کتاب اس عنوان سے قائم کی ہے کتاب اخبار الاحاد جس کے تحت جو باب باندھا ہے، اس کا عنوان ہے: ’’باب ما جاء فی إجازۃ خبر الواحد الصدوق فی الاذان والصلاۃ والصوم والفرائض والأحکام‘‘ اذان، نماز، روزہ اور فرائض واحکام کے باب میں بے حد سچے ایک راوی کی خبر پر عمل کرنے کے جواز کا باب۔ اس باب کے تحت احادیث نقل کرنے سے قبل انہوں نے پہلے سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۱۲۲ نقل کی ہے اور اس میں وارد ’’طائفہ‘‘ کی تشریح میں یہ کہہ کر سورٔ حجرات کی آیت نمبر ۹ سے استدلال کیا ہے کہ ایک شخص کو طائفہ کا نام بھی دیا جاتا ہے، پھر انہوں نے سورۂ حجرات کی اسی آیت سے استدلال کیا ہے جس پر تفصیل سے بحث کی جا چکی ہے۔ اس باب کے تحت امام بخاری لگا تار ۱۴ حدیثیں لائے ہیں جن میں سے ہر حدیث کسی نہ کسی شکل میں خبر واحد کے شرعی حجت ہونے پر دلالت کرتی ہے جن میں سے بعض کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ حدیث کی تبلیغ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تعلیم: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ایک سے زیادہ بار یہ خبر دی ہے کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں کتاب اللہ اور حدیث کی تعلیم بھی داخل ہے: ’’ویعلمہم الکتاب والحکمۃ‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اس منصب کا یہ تقاضا تھا کہ اگر حدیث سے کسی حکم کے ثبوت کے لیے راویوں کی کثرت تعداد مطلوب ہوتی، یا راویوں کا تفقہ ضروری ہوتا یا کم از کم عقائد کے ثبوت کے لیے ایسی احادیث درکار ہوتیں جو متواتر ہوں آحاد نہ ہوں تو ایک ہی بار آپ نے اسے بیان کر دیا ہوتا جس طرح آپ نے بکثرت مواقع پر یہ واضح فرما دیا ہے کہ آپ کی طرف ایسی کوئی بات منسوب کرنا جو آپ نے نہ فرمائی ہو۔ قطع نظر اس کے کہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا اعمال سے، اور اس میں اسلام کے اصولی احکام بیان ہوئے ہیں ۔ یا فروعی، دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے، لیکن جب آپ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں ایسا کرنے کا آپ کو کبھی کوئی حکم نہیں دیا ہے، تو اس سے یہ لازم آیاکہ حدیث کے حجت و دلیل ہونے کے لیے اس کے متواتر ہونے اور راویوں کے فقیہہ ہونے کی شرط لگانا اللہ و رسول پر استدراک ہے۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اگر ہم اس کو پھیلا دیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے دقیق اور تفصیلی مطالعہ سے آپ کا یہ معمول سامنے آتا ہے کہ جب آپ کسی صحابی سے کوئی بات فرماتے، اس کو کسی کام کا حکم دیتے یا اس کے کسی سوال کا جواب دیتے تو آپ کی وہ بات، وہ کام، اور وہ جواب صرف اس کے لیے نہیں ، پوری امت کے لیے ہوتا، وقتی اور عارضی نہ ہوتا، قیامت تک کے لیے ہوتا تھا، اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی