کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 339
اس کے بعد انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے۔[1]وہ ان کے اسی مزعوم دین کی تفصیل ہے جس کی قرآن پہلی نہیں اور آخری کتاب ہے جو سر تا سر فطرتِ انسانی میں ودیعت حقائق کا بیان ہے اور ان حقائق نے ’’سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی نبوت میں پوری انسانیت کے لیے واضح سنت کی صورت اختیار کر لی۔‘‘[2] دین کی یہ تاریخ بیان کرنے کے بعد انہوں نے قرآنی دعوت کو تین مقدمات میں بند کر دیا ہے: (۱) دین فطرت (۲) سنت ابراہیمی (۳) نبیوں کے صحائف غامدی صاحب کو یہ اصرار ہے کہ قرآن میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی اور اعتکاف وغیرہ سب ملت ابراہیمی کے احکام ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ نزول قرآن سے پہلے ہی سے عرب ان اعمال سے واقف تھے، جمعہ کی اقامت کا مفہوم بھی جانتے تھے، نماز جنازہ بھی پڑھتے تھے، روزہ بھی رکھتے تھے، زکوٰۃ بھی دیتے تھے، حج بھی کرتے تھے اگرچہ اس میں چند بدعتیں داخل کر دی تھیں ۔ ان کی ہرزہ سرائیوں کی تان اس دعوے پر ٹوٹی ہے: ’’یہ پورا دین خوب و ناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتا ہے جو انسانی فطرت میں روز اول سے ودیعت ہیں اور جنہیں قرآن معروف اور منکر سے تعبیر کرتا ہے، شریعت کے جو اوامر و نواہی تعین کے ساتھ قرآن میں بیان ہوئے ہیں ، وہ ان معروفات و منکرات کے بعد اور ان کی اساس پر قائم ہیں ، انہیں چھوڑ کر شریعت کا کوئی تصور اگر قائم کیا جائے گا تو وہ ہر لحاظ سے ناقص اور قرآن کے منشا کے خلاف ہو گا۔‘‘ [3] غامدی صاحب نے قبل از نزول قرآن ملت ابراہیمی کے احکام کے عربوں میں معروف ہونے کے جو دلائل دیے ہیں ان میں صرف ایک صحیح مسلم سے ماخوذ ہے اور بقیہ لسان العرب اور المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام سے ماخوذ ہیں ۔ حج و عمرہ سے متعلق ان کا دعوی ہے کہ قریش نے چند بدعتیں ان میں بے شک داخل کر دی تھیں ، لیکن ان کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اس وقت ادا کی جاتی ہیں اور لوگ ان بدعتوں سے واقف بھی تھے، انہوں نے اس کی مثال میں فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا وہ قریش کی ان بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اسی طریقے پر کیا جس طریقے پر سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔[4]انہوں نے اپنی مثال کے حوالہ میں صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۱۵۸۱ کا ذکر کیا ہے جو جھوٹ ہے۔ نزول قرآن کے وقت دین ابراہیم کا کوئی وجود نہیں تھا: غامدی صاحب کے نزدیک اسلام جس دین ابراہیمی کا تجدید اور اصلاح شدہ نسخہ ہے اس دین کا کوئی بھی تصور ذہنوں میں نہیں رہ گیا تھا جس ’’الٰہ واحد‘‘ کے عقیدے پر یہ دین قائم تھا وہ عربوں کے نزدیک عمومی طور پر اور اہل مکہ کے
[1] ص ۵۲-۵۸ [2] ۵۲-۵۳ [3] ص ۵۸ [4] ص ۵۶