کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 338
اللہ کی کتاب اور اپنی سنت کے ذریعہ ہمیں صرف عبادت کے طریقے ہی نہیں سکھائے، بلکہ ہمیں ایسا علم بھی دیا کہ اس پر عمل کر کے ہم اللہ کے مومن اور صالح بندے بن سکتے ہیں ۔ اللہ نے اپنے اوپر ہمارے ایمان کی تکمیل کے لیے اپنے رسول کی رسالت پر ایمان کو اس لیے فرض کر دیا کہ جو عبادت اور شرعی احکام اللہ کی کتاب اور محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور سنت سے باہر سے لیے جائیں گے اور ان میں منصوص نہیں ہوں گے وہ سب مردود ہوں گے اور ان پر عمل اللہ کی عبادت نہیں ، اس کی معصیت ہو گی۔ فطرت ماخد شرع نہیں ہے: فطرت ماخذ شرع نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی فطرت سے یہ نہیں معلوم کر سکتا کہ وہ اللہ کی عبادت کس طرح کرے، البتہ اللہ کی توحید بذریعہ فطرت معلوم کی جا سکتی ہے، اسی وجہ سے اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے اور فطرت سلیمہ اللہ کی عبادت میں غیر اللہ کو شریک بنانے سے ابا کرتی ہے اور اولاد آدم نے جتنی بھی چیزوں کو اللہ کا شریک بنایا ہے ان میں سے کوئی بھی چیز معبود بننے کی صفت نہیں رکھتی، لہٰذا یہ حق بھی نہیں رکھتی کہ اس کو معبود بنایا جائے: ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُo﴾ (لقمن: ۳۰) ’’یہ اس لیے ہے کہ درحقیقت اللہ ہی حق ہے اور یہ کہ اس کے سوا یہ جس کو پکارتے ہیں یقینا وہ باطل ہیں ، بلاشبہ اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔‘‘ آیت میں ’’وحدۃ الوجود‘‘ کے قائلین کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ اس میں اللہ ہی کے حق ہونے کا مطلب تنہا اس کے معبود ہونے کا حق ہے، اس لیے کہ وہ سب سے بلند اور ہر چیز سے بڑا اور عظیم ہے اور جو سب پر بلند ہو اور سب سے بڑا ہو وہی مستحق عبادت ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ کے سوا پکاری جانے والی تمام چیزوں کے معبود ہونے کا بطلان ہے، ان کے وجود کا بطلان نہیں ہے۔ جاوید احمد غامدی نے اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ اولاً تو وہ اس دینِ اسلام کو سنت ابراہیمی کا تجدید و اصلاح شدہ نسخہ ثابت کریں جس کی نکارت قرآن سے ثابت کی جا چکی ہے۔ ثانیاً انہوں نے یہ ثابت کرنے کی سعیٔ مذموم کی ہے کہ دین ابراہیمی: عبادات، معاشرت، خورد و نوش اور رسوم و آداب سے عبارت ہے، اور یہی سنت ہے اور ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے ملے ہیں ۔[1] ان دونوں کے علاوہ ان کے نزدیک کوئی بھی چیز دین نہیں ہے۔
[1] ص ۱۰-۱۱