کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 337
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مومنین کا تزکیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کو حسی اور معنوی طور پر پاک کرتے تھے، بایں معنی کہ آپ نے قولا ان کو نماز کے وقت وضو کرنے، حالت جنابت میں غسل کرنے اور جسم و لباس کو نجاستوں سے پاک کرنے کا حکم دیا اور عملاً اپنی سیرت پاک سے اس طہارت و پاکیزگی کے نمونے پیش کیے، اور ان کا معنوی تزکیہ اس طرح کیا کہ ان کے دلوں کو شرک، شک و تذبذب اور نفاق اور برے اخلاق سے پاک کیا۔ کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کے معنی ہیں کہ ان کو کتاب اللہ کی آیات پڑھ کر سنانے کے علاوہ ان کے معانی اور مفاہیم ان سے بیان فرمائے اور اسی کے ساتھ اپنے مستقل اوامر و نواہی کی شکل میں ان کو حدیث اور سنت کی تعلیم دی اور ان کی تعمیل و تنفیذ کے طریقے سکھائے اور آخر میں یہ فرمایا کہ رسول کی بعثت کی صورت میں اپنے اوپر اللہ کے فضل سے پہلے وہ ایسی مرکب ضلالت اور گمراہی میں مبتلا تھے جو ہر جانب سے ان کو گھیرے ہوئی تھی، توحید کے بجائے وہ شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے۔ اللہ کی عبادت سے ناواقف تھے، ان کے اندر بداخلاقی عام ہو چکی تھی اور رحم دلی اور انسانیت کے نام کی کوئی چیز ان کے اندر باقی نہیں رہی تھی۔ ۲۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۵۱ میں مومنین پر اپنے اتمام نعمت کے طور پر فرمایا ہے: ﴿کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۵۱) ’’جس طرح ہم نے تمہارے اندر ایک رسول تمہی میں سے بھیجا جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ سب سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘ یہ آیت مبارکہ سابقہ آیت کے فقرہ: وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَo ’’اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر تمام کروں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ سے متعلق ہے اور اہل ایمان پر اتمام نعمت اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس نے ان کے اندر اپنا رسول بھیج کر ان کو اپنی عبادت کا صحیح طریقہ سکھایا۔ قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی تخلیق اپنی عبادت کے لیے کی ہے، اور اس کی عبادت اس کی مرضی کے مطابق اس کے بیان کردہ احکام کے مطابق کرنے ہی سے ہو سکتی ہے اور یہ احکام صرف اس کے رسول ہی بتا سکتے ہیں ، کیونکہ انسان اپنی عقل اور فطرت اور آفاق و انفس کے شواہد سے یہ تو جان سکتا ہے کہ اس کائنات کا خالق اور رب کوئی بے مثال، بے پایاں قدرتوں کا مالک اور ہر مخلوق کی ضرورتوں کا علم رکھنے والا ہی ہو سکتا ہے اور وہ اللہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا، جس کا تقاضا یہ ہے کہ تنہا وہی معبود بھی ہو، مگر کوئی بھی انسان حتی کہ اس کے نبی اور رسول بھی اپنے آپ یہ نہیں جان سکتے کہ اس کی عبادت کس طرح کی جائے؟ لہٰذا رب رحمن و رحیم نے ہر زمانے اور ہر آبادی میں اپنے رسول بھیجے کہ وہ اولاد آدم کو اللہ کی عبادت کے طریقے قولا بتائیں اور عملاً کر کے دکھائیں ۔ ہمارے نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سلسلۂ نبوت و رسالت کی آخری کڑی تھے آپ نے