کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 336
مطالبہ کیا ہے کہ یہ سنت قرآن سے نہیں ، بلکہ اس کے حاملین اور ناقلین کے اجماع و تواتر سے لی جائے۔ (۵۸) ان کے نزدیک قدیم آسمانی صحیفے نہ صرف یہ کہ محفوظ ہیں ، بلکہ یہی ’’الہامی لٹریچر‘ کے خاص اسالیب، یہود و نصاریٰ کی تاریخ، انبیائے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب و اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل جاننے کے لیے اصل ماخذ ہیں ۔ رہی تفسیر کی کتابوں میں منقول روایتیں تو وہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں ۔[1] انہوں نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام میں حلال و حرام اور معروف و منکر کو جاننے کا ذریعہ قرآن و حدیث نہیں ، بلکہ انسانی فطرت میں ودیعت خوب و ناخوب کا شعور ہے۔ [2] ان کا دعویٰ ہے کہ انسان فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی صحیح عبادت بھی کر سکتا ہے وہ خلط مبحث کرنے میں بڑے ماہر ہیں اور اپنے مطلب کی چیزیں تلاش کرنے اور پھر ان پر اپنا خیالی قصر تعمیر کرنے میں بڑے تیز ہیں ۔ وہ اجماع، تواتر اور فطرت وغیرہ کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں ، مگر ان میں سے کسی کے بھی صحیح مفہوم سے واقف نہیں ہیں ۔ ملت ابراہیمی کی حقیقت میں قرآنی آیات کی روشنی میں بیان کر چکا ہوں ، ان کا دعویٰ ہے کہ سنت ابراہیمی ہی ملت ابراہیمی ہے اور نماز، روزہ، حج، اور زکوٰۃ وغیرہ اسی ملت کے احکام ہیں ، قرآن کے احکام نہیں اور قرآن کے مخاطب ان کی اس مزعومہ حقیقت سے پوری طرح واقف تھے، انہوں نے اپنے اس دعوے پر صحیح مسلم کی اس حدیث سے استدلال بھی کیا ہے جس میں آیا ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی نماز کے پابند ہو چکے تھے۔ [3] غامدی کے نزدیک ’’سیرت پاک‘‘ عنوان عمل نہیں ، عنوان زینت ہے، ان کے نزدیک قرآن و حدیث کی ہدایات کے بغیر عقیدۂ توحید بھی پایا جا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مقبول عبادت بھی کی جا سکتی ہے۔ اپنی تحریروں کی روشنی میں نہ ان کا قرآن پر ایمان ہے اور نہ رسالت پر، اب وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم؟ اس کا فیصلہ قارئین کر سکتے ہیں ۔ بعثت سے پہلے عرب کھلی گمراہی میں مبتلا تھے: ۱:… ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo﴾ (آل عمران: ۱۶۴) ’’یقینا اللہ نے مومنین پر اس وقت بڑا فضل فرمایا جب اس نے ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، جبکہ حقیقت میں وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘ یہ آیت یہ بتا رہی ہے کہ عربوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ان پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔
[1] ص:۵۸ [2] ص :۵۸ [3] ص :۵۵