کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 333
’’ممکن نہ تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون میں اپنے بھائی کو پکڑے، مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ ۵۔ دین اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور تعظیم کے جذبے سے اس کی طاعت، عبادت و بندگی، اس کے احکام کی تعمیل و بجا آوری اور اس کے لیے عاجزی اور فروتنی وغیرہ اس معنی میں ’’دین‘‘ اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں میں ہمیشہ ایک رہا ہے: ﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ﴾ (شوری: ۱۳) ’’اس نے تمہارے لیے طاعت کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم ابراہیم، اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں ، وہ یہ کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں جدا جدا نہ ہو۔‘‘ ۶۔ دین بمعنی طریق عبادت قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط، پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ، صرف اس معنی میں اس کی اضافت مشرکین کی طرف کی گئی ہے اور اس معنی میں اس کی اضافت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی کی گئی ہے اور یہ بھی صرف ایک سورت، سورۂ کافرون میں ، ارشاد الٰہی ہے: ﴿لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِo﴾ (الکافرون: ۶) ’’تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے وہ طریقۂ عبادت ہے جسے تم نے اور تمہارے باپ دادا نے اختیار کر رکھا ہے اور میرے لیے وہ طریقہ عبادت ہے جس کی ہدایت مجھے میرے رب نے دی ہے اور جو سیدھا اور ہر کجی سے پاک راستہ اور طریقہ ہے۔ یہ آیت کفار مکہ کے دین کے لیے پروانۂ تصویب اور تصدیق نہیں ، بلکہ اعلان و اظہار براء ت ہے، جس کی تائید سورۂ یونس کی آیت نمبر ۴۱ سے ہوتی ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ اِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْٓؤُنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَo﴾ (یونس: ۴۱) ’’اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو کہہ دو میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم اس سے بری ہو جو میں کرتا ہوں اور میں اس سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔‘‘ ۷۔ دین بمعنی مکمل ضابطۂ حیات اور کامل طریقۂ زندگی جس میں عقائد، شرعی احکام، عبادات، اخلاق، آداب اور معاملات سب داخل ہیں ان جامع و شامل معانی کا حامل لفظ ’’دین‘‘ قرآن پاک کی متعدد سورتوں میں آیا ہے،