کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 332
باطل کی درماندگیوں کو گنایا گیا ہے اور انہی اغراض اور معانی کے اظہار کے لیے ’’دین‘‘ کے لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ قرآن میں دین کتنے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ان سب کا بیان دشوار ہے، البتہ ان میں سے نمایاں استعمالات کا ذکر ممکن بھی ہے اور مفید بھی۔ ۱۔ قرآن میں اعمال کے حساب و کتاب اور ان کی جزا اور سزا کے معنیٰ میں دین کا بکثرت استعمال ہوا ہے اور یوم آخر کو اسی معنیٰ میں ’’یوم الدین‘‘ فرمایا گیا ہے، کیونکہ اس دن لوگوں سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ان کے خیر یا شر ہونے کے اعتبار سے ان کو ان کا بدلہ دیا جائے گا۔ سورۂ فاتحہ جو نماز کی سورت ہے اور جس کا اس کی ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات بیان کرتے ہوئے اس کو ’’مالک یوم الدین‘‘ روزِ جزا کا مالک فرمایا گیا ہے۔ ۲۔ دین بمعنی طاعت الٰہی: اللہ تعالیٰ کے غلبہ و قہر اور اس کے غیر محدود اقتدار کے سامنے تذلل اور خضوع اور فروتنی اور عاجزی، سورۂ لقمان میں ہے: ﴿وَ اِذَا غَشِیَہُمْ مَّوْجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ (لقمان: ۳۲) ’’اور جب ان کو کوئی موج سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہے تو وہ اللہ کو، طاعت کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں ۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس موقع پر وہ صرف اللہ تعالیٰ کو قادر، نجات دینے والا، دعا سننے اور قبول کرنے والا مان کر اسے پکارتے ہیں ۔ اس آیت میں کفار اور مشرکین کا حال بیان ہوا ہے جو اس طرح کے جان لیوا مواقع پر اپنے تمام معبودوں کو نظر انداز کر کے صرف اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار بندے بن کر اس کو پکارتے اور اس سے فریاد کرتے ہیں ، لیکن صوفیا اس طرح کے مواقع پر بھی غوث اعظم، یا اپنے پیر و مرشد اور قطب کی دہائی دیتے ہیں ؟!!! ۳۔ دین بمعنی حکم اور فیصلہ: ﴿الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ﴾ (النور: ۲) ’’زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تم کو ان کے متعلق اللہ کے حکم میں نرمی کا جذبہ دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ ۴۔ دین بمعنی قانون: ﴿مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ﴾ (یوسف: ۷۶)