کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 331
اضافت کے ساتھ ملت کے بجائے دین کے لفظ کا استعمال مناسب اور بر محل نہیں تھا۔ قرآن پاک میں ایک جگہ ’’ملت ابراہیم‘‘ سے پہلے ’’دینا قیما‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی گئی ہے اور بعد میں ان کی صفت حنیف کی، ارشاد الٰہی ہے: ﴿قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰینِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرَہِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo﴾ (الانعام:۱۶۱) ’’کہہ دو درحقیقت میرے رب نے مجھے ایک سیدھے راستے کی ہدایت دی ہے کجی سے پاک دین کی ملت ابراہیم کی جو یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔‘‘ سورۂ انعام مکی ہے اور ملت ابراہیم سے پہلے اور بعد میں اس کے سیدھی ہونے اور کجی سے پاک ہونے اور ابراہیم علیہ السلام کے مشرکوں میں سے نہ ہونے کی یہ ساری تاکیدات اسی لیے تو ہیں کہ اہل کتاب اور مشرکوں کو بتا دیا جائے کہ اس ملت یعنی توحید سے تمہارا کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ اس توحید پر تو نبی عربی امی اور ان کے سچے پیرو قائم ہیں ۔ نزول قرآن سے پہلے لفظ دین عربوں میں مستعمل تو تھا، مگر ان کے تصور دین کی طرح نہایت محدود معنوں میں مستعمل تھا اس کے معنی میں غیر معمولی وسعت قرآن نے دی ہے اور یہ بھی مدنی سورتوں میں ، کیونکہ شرائع اسلام کا تفصیلی بیان انہیں سورتوں میں ہوا ہے رہیں مکی سورتیں تو ان میں مختلف طریقوں سے توحید کو بیان کیا گیا ہے اور شرک کی مذمت کی گئی ہے۔ عربی ادبیات میں دین کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا اور قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے: ﴿وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌo﴾ (النحل: ۱۰۳) ’’اور یہ واضح عربی زبان ہے۔‘‘ نضر بن شُمیل ایک لغوی اور عالم حدیث گزرا ہے اس نے عربی لغت اور ادب کے امام خلیل بن احمد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور عرب بادیہ نشینوں میں رہ کر نا مانوس عربی الفاظ سیکھے اس کا بیان ہے کہ اس نے ایک اعرابی سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: ’’لو لقیتنی علی دین غیر ہذہ لأخبرتک‘‘ اگر تم مجھ سے اس حالت کے علاوہ کسی اور حالت میں ملے تو میں تمہیں اس کی خبر دوں گا۔ [1] لگتا ہے کہ یہ دین کا بہت قدیم استعمال تھا، جب قرآن نازل ہوا تو اس نے اس کے استعمال کو غیر معمولی وسعت بخش دی وہ دین کو مفرد معنوں میں بھی استعمال کرتا ہے اور مرکب معنوں میں بھی قرآن کی مکی سورتوں میں توحید کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت کو دلائل،مثالوں اور آفاق و انفس کے شواہد سے واضح کیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل شرک کی مذمت کی گئی ہے اس کو فطرت انسانی کے منافی قرار دیا گیا ہے اور خود ساختہ معبودان
[1] بحوالۂ اباطیل و اسمار ص ۴۱۴۔