کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 330
فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ…﴾ (المائدۃ: ۴۸) ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راستہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ تمہیں اس چیز میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں دے رکھی ہے۔‘‘ میں نے اتنی تفصیل سے توحید اور شرعی احکام یا اصول یا فروع کو اس لیے بیان کیا ہے تاکہ غامدی صاحب کے مغالطوں کا پردہ چاک کر سکوں ۔ یہاں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سنت ابراہیمی کا اصلاح شدہ نسخہ قرار دیا ہے آگے انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’سنت قرآن کے بعد نہیں ، بلکہ قرآن پر مقدم ہے جو اس کے حاملین کے اجماع و تواتر ہی سے اخذ کی جائے گی، قرآن میں اس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع و تواتر پر مبنی روایت سے متعین ہوں گی۔‘‘[1] موصوف کی اس ہرزہ سرائی پر تبصرہ میں بعد میں کروں گا سلسلہ بیان کے اندر رہتے ہوئے دین کا مفہوم مختصراً واضح کر دینا چاہتا ہوں ۔ دین کیا ہے؟ دین کا لفظ ملت کے مقابلے میں زیادہ وسیع المعنی ہے اور قرآن پاک میں اتنی کثرت سے استعمال ہوا کہ اس کے تمام معانی کے ساتھ اس کو سمیٹنا ناممکن نہ سہی مشکل اور دشوار ضرور ہے میں نے اوپر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور اہل کتاب کی عبادت یا طریقۂ عبادت کو دین کا نام نہیں دیا ہے، بلکہ ’’ملت‘‘ فرمایا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرکانہ عبادت دین نہیں ملت ہے، مگر اسی کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کی طرف اضافت کے ساتھ ان کے طریقے کو بھی ملت کہا ہے جو مشرکانہ طریقہ نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ سطور میں اس کی توضیح اور توجیہ دونوں کی جا چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کو ’’ملت‘‘یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے طریقۂ عبادت کے مقابلے میں کہا گیا ہے اور ان کی خاص صفتِ ’’حنیف‘‘ فرما کر ان کی ملت کو خالص ’’ملت توحید‘‘ قرار دے دیا گیا ہے اور ان کے طریق عبادت کے لیے دین کی تعبیر اختیار کرنے کے بجائے ’’ملت‘‘ کی تعبیر اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین ان کو اپنا جد امجد اور پیشوا مانتے ہیں ، جبکہ طریقہ اور روش مشرکانہ اختیار کر رکھی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے طریقے کو ملت کہنے کے ساتھ ان کو حنیف فرما کر اور مشرکین سے ان کے نہ ہونے کی تاکید فرما کر ان کی ملت کو مشرکین اور اہل کتاب کی ملت کے برعکس خالص ملت توحید قرار دے دیا ہے، کیونکہ حنیف اس کو کہتے ہیں جو تمام باطل اور مشرکانہ عقائد سے کٹ کر اور ان سے کنارہ کش ہو کر صرف توحید کے لیے یکسو ہو جائے دین کے لفظ میں جو جامعیت ہے اس کے پیش نظر ان کی طرف
[1] ص ۵۸