کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 33
عقیدہ کے باب میں حدیث واحد کے دلیل ہونے کی مثال: اسلام میں عقیدہ وعمل کی صحت اور عند اللہ مقبول ہونے کا جس چیز پر مدار ہے وہ نیت ہے اور نیت کی حدیث صرف خبر واحد ہی نہیں ، بلکہ ایسی خبر واحد ہے جس کا اصطلاحی نام ’’غریب‘‘ ہے اور یہ حدیث چار طبقوں میں صرف ایک ایک راوی سے مروی ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے راوی صرف عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ عمر سے اس کی روایت صرف علقمہ بن وقاص لیثی نے کی ہے اور لیثی سے اس کی روایت کرنے والے تنہا محمد بن ابراہیم ہیں اور محمد بن ابراہیم سے اس کی روایت میں یحییٰ بن سعید انصاری منفرد ہیں ۔[1] اس کے باوجود یہ حدیث دین میں بنیاد اور اساس کا درجہ رکھتی ہے اور اس کے بموجب اگر کوئی شخص دل سے تنہا اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کا عقیدہ نہ رکھے اور زبان سے ایک لاکھ بار لا الٰہ اللہ کا اعلان کر دے تب بھی موحد مومن نہیں قرار پائے گا اس وضاحت کی روشنی میں ان لوگوں کے ایمان کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے جو ’’الٰہ‘‘ کے معنی مقصود یا موجود قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک کلمہ توحید کے معنی ہوئے: سوائے اللہ کے کوئی مقصود نہیں ، یا اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں !! اس طرح نیت کے بغیر دین کے کسی بھی عمل کا اعتبار نہیں ہے۔ اوپر میں بار بار یہ عرض کر چکا ہوں کہ قرآن وحدیث میں اصطلاح کے طور پر نہ حدیث واحد کا ذکر آیا ہے اور نہ حدیث متواتر کا، البتہ صفت اور معنی کی صورت میں حدیث واحد کا ذکر متعدد بار آیا ہے اور اوپر عبداللہ بن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی جو حدیث نقل کی گئی ہے اس سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ ’’حدیث واحد‘‘ سے ایسی حدیث مراد ہے جس کا راوی صرف ایک ہو، یعنی ایک شخض کی روایت کردہ حدیث، یہ ایک راوی سلسلہ رواۃ کے کسی ایک طبقہ میں بھی ہو سکتا ہے اور تمام ہی طبقات میں بھی۔ بعد میں حدیث واحد سے ہر وہ حدیث مراد لی جانے لگی جو متواتر نہ ہو اس طرح اس میں وسعت پیدا ہوگئی، اور چونکہ تواتر کی کسی تعداد پر محدثین کا اتفاق نہیں ہے اور نہ یہ نام ہی قرآن وحدیث میں آیا ہے اس لیے اگر کسی حدیث کے راویوں کی تعداد ہر طبقہ میں دس ۱۰ سے بھی زیادہ ہو جائے تب بھی اس کو حدیث متواتر کا نام دینا درست نہیں ہے اس لیے محدثین نے واحد اور متواتر کے درمیان ’’مستفیض‘‘ یا مشہور کی اصطلاح کا اضافہ کر دیا ہے: تاکہ اگر راویوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو اس کو مشہور کا نام دے دیا جائے۔ رہا بعض محدثین یا علماء کا یہ فرمانا کہ یہ حدیث متواتر ہے، یا فلاں شرعی مسئلہ متواتر احادیث سے ثابت ہے، یا اس طرح کی کوئی تعبیر، تو اس سے ایسا کہنے والوں کی مراد یہ ہو سکتی ہے کہ فلاں مسئلہ کثیر احادیث سے ثابت ہے، یا فلاں حدیث کثیر سندوں سے مروی اور منقول ہے۔
[1] بخاری نمبر ۱