کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 329
الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ… کے بجائے۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا یجدد سنتی اے ہمارے رب! تو ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو میری سنت کی تجدید کرے‘‘ ہوتی!!! اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنا فضل بیان کرتے ہوئے یہ نہ فرمایا ہوتا کہ: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ …﴾ بلکہ یہ فرمایا ہوتا: لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ ، یجدد سنۃ ابراہیم … درحقیقت اللہ نے مؤمنین پر اس وقت بڑا فضل کیا جب اس نے ان میں ، انہی میں سے ایک ایسا رسول بھیجا جو ابراہیم کی سنت کی تجدید کرتا ہے۔!!! امر واقعہ یہ ہے کہ ’’عقیدہ توحید‘‘ میں اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں کے درمیان کلی اتفاق و اتحاد تھا اور مخصوص طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ملت ابراہیم‘‘ کی پیروی کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین سبھی ان کو اپنی ملت کی اصل مانتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ ابراہیم تو ’’موحد خالص‘‘ تھا اور ’’مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دے کر کہ ’’ملت ابراہیم‘‘ کی پیروی کرو جو توحید کے لیے یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔ ان کے زعم باطل کو کھول دیا ہے، ورنہ عقیدۂ توحید تو سارے نبیوں اور رسولوں کا ایک ہی تھا، البتہ سب کی شریعتیں ایک دوسری سے مختلف تھیں ۔ چنانچہ سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ اور منافقین مدینہ کی حق دشمنیوں ، اور معاندانہ سرگرمیوں کا بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا ہے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ کفر کے میدان میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے جو لوگ سرگرم کار ہیں ان کی دوڑ دھوپ سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں ، پھر ان کے ناپاک کرتوتوں کی ایک فہرست پیش کرنے کے بعد تورات و انجیل کے بعض شرعی احکام اور قوانین وحدود بیان فرمائے ہیں ، اور آخر میں یہ فرمایا ہے کہ یہ کتاب ہم نے حق کے ساتھ اتاری ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگراں بھی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے اور ان اہل کتاب کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنے کا حکم دیا ہے اور آخر میں یہ اصولی حکم بیان فرمایا ہے کہ سابقہ تمام امتوں میں سے ہر ایک کے شرعی راستے اور طریقے مختلف بنائے گئے تھے۔ ایسا ان کی آزمائش کے لیے کیا گیا تھا ورنہ اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ (۴۱-۴۸) ارشادربانی ہے: ﴿لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ