کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 328
یہود و نصاریٰ کو اپنی کتابوں ، تورات اور انجیل سے یہ معلوم تھا کہ سب سے آخری اور سب سے افضل نبی اور رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور وہ آپ کی بعثت کا نہایت بے صبری سے انتظار بھی کر رہے تھے: ﴿وَ لَمَّا جَآئَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۸۹) ’’اور جب ان کے پاس اللہ کے ہاں سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس موجود -کتاب- کی تصدیق کرنے والی ہے، جبکہ وہ اس سے قبل ان لوگوں پر فتح طلب کیا کرتے تھے جنہوں نے کفر کیا ہے، پھر جب ان کے پاس وہ چیز آ گئی جس کو انہوں نے پہچان لیا تو انہوں نے اس کا انکار کر دیا، پس اللہ کی لعنت ہے کافروں پر۔‘‘ اس طرح یہود و نصاریٰ نے بھی رسول عربی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کو ماننے سے انکار کر کے ابراہیم علیہ السلام سے اپنا رشتہ و ناتا توڑ لیا۔ مذکورہ بالا قرآنی حقائق کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ملت ابراہیم‘‘ کی پیروی کرنے کے حکم کا مطلب جہاں ’’ملت توحید‘‘ کی پیروی کا حکم ہے وہیں یہ حکم اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ملت توحید کے پیرو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین ہیں ، یہود و نصاریٰ اور مشرکین نہیں ہیں ، قرآنی اسلوب کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کام کا حکم دینے کا مطلب جہاں یہ ہوتا ہے کہ یہ کام بڑی اہمیت کا حامل اور بنیاد دین ہے وہیں آپ کے ذریعہ آپ پر ایمان لانے والوں پر بھی آپ کی پیروی فرض ہے، بلکہ یہی آخری چیز سرفہرست ہوتی ہے، کیونکہ رسول تو حکم الٰہی کی عملی تصویر ہوتا ہے، اس چیز کو اس حکم الٰہی کی روشنی میں سمجھئے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا﴾ (الاحزاب: ۱-۲) ’’اے نبی! اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی باتیں مت مانو درحقیقت اللہ سب کچھ جاننے والا بڑی حکمت والا ہے اور تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف جس چیز کی وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرو درحقیقت اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔‘‘ آیت میں ’’تعملون‘‘ سے میری گزشتہ باتوں کی تائید ہوتی ہے، فتدبروا فہم!! اگر… اگر سورۂ نحل کی آیت کا مطلب وہی ہوتا جو غامدی صاحب نے لیا ہے اور ’’ملت ابراہیم‘‘ سے سنت ابراہیمی مراد ہوتی جس کو، تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ تو دعاء ابراہیمی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ