کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 327
نے توحید کے بجائے شرک کی روش اختیار کر رکھی ہے تو پھر تم ابراہیمی کیسے ہوئے، وہ نہ تو یہودی تھے، نہ نصرانی اور نہ مشرک، بلکہ مسلم خالص تھے۔ ﴿مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo﴾ (آل عمران: ۶۷) ’’ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ یکسو مسلمان تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔‘‘ ۲۔ ابراہیم علیہ السلام سے رشتہ و قرابت صرف ان کو حاصل ہے جو اس کے طریقے کے پیرو ہیں اور اس صفت سے موصوف ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے تھے اور یہ آخری نبی اور ان پر ایمان لانے والے، ان تین گروہوں کے علاوہ تمام مذاہب والے ان سے کوئی رشتہ و قرابت نہیں رکھتے: ﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَo﴾ (آل عمران: ۶۸) ’’درحقیقت لوگوں میں سب سے زیادہ ابراہیم سے قریب وہ ہیں ، جنہوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو ایمان لائے اور اللہ مومنوں کا دوست ہے۔‘‘ ۳۔ ابراہیم علیہ السلام سے رشتہ و قرابت کے دعوے دار یہود و نصاریٰ اور مشرکین کایہ فرض تھا کہ وہ نبی عربی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید پر سب سے پہلے لبیک کہتے، مشرکین کو یہ معلوم تھا کہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کے افضل ترین اور اشرف ترین خانوادوں سے تعلق رکھتے ہیں : ((إن اللہ عز و جل اصطفی کنانۃ من ولد اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام واصطفی قریشا من کنانۃ واصطفی من قریش بنی ہاشم و اصطفانی من بنی ہاشم۔ )) ’’درحقیقت اللہ عز و جل نے کنانہ کو اولاد اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام سے منتخب فرمایا، کنانہ سے قریش کو چُنا، قریش سے بنو ہاشم کا انتخاب فرمایا اور بنو ہاشم سے مجھے اختیار فرمایا۔‘‘ [1] مشرکین کو یہ اعتراف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سچے اور امانت دار ہیں ، انہوں نے آپ کا لقب ’’صادق و امین‘‘ قرار دے رکھا تھا، مگر جب آپ نے اپنی دعوت توحید پیش کی تو انہوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اس طرح اپنے جد امجد ابراہیم علیہ السلام سے اپنا رشتہ و ناتا توڑ لیا۔
[1] مسلم: ۲۲۷۴، عن وائلۃ بن اسقع رضی اللہ عنہ