کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 326
ملت اور دین: غامدی خود بھی تفسیر کے ’’امام‘‘ ہیں اور ایک امام تفسیر کے شاگرد اور پیرو بھی ہیں انہوں نے سورۂ نحل کی مذکورہ بالا آیت سے اپنے گمراہ کن اور من گھڑت دعوے پر جو استدلال کیا ہے وہ ان کی قرآن فہمی کا مذاق اڑا رہا ہے، خاص طور پر جو شخص فہم قرآن کے لیے ’’نظم کلام‘‘ کی روایت کو بنیادی درجہ دیتا ہو اس کے قلم سے ایسا غلط استدلال مزید تعجب اور حیرت کا باعث ہے۔ قرآن پاک میں ’’ملت‘‘ کا استعمال صرف اضافت کے ساتھ ہوا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ اس لفظ کا ’’مضاف الیہ‘‘ ہر جگہ کوئی جماعت یا قوم ہے جو بلا استثناء مشرک جماعت یا قوم ہے، اس طرح اس لفظ کے معنی عقیدۂ شرک کے ہو گئے ہیں اور اسی مفہوم میں اس کا استعمال ہوا ہے، چنانچہ یہود و نصاری، مشرکین اور جن قوموں میں انبیاء و رسول بھیجے گئے ان سب کے طریقوں کو ’’ملت‘‘ کہا گیا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کو بھی ’’ملت‘‘ فرمایا گیا ہے، البتہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۳۰ کے علاوہ جتنی آیتوں میں ’’ملت ابراہیم‘‘ کا ذکر آیا ہے اس میں ان کی صفت ’’حنیف‘‘ بھی بیان کی گئی ہے اس طرح ان کی ملت یقینی اور متعینہ طور پر ’’ملت توحید‘‘ کے معنی میں ہے مطلق ’’ملت‘‘ نہیں ہے۔‘‘ (البقرہ ۱۳۵، آل عمران ۶۷، ۹۵، نساء ۱۲۵، انعام ۷۹، نحل ۱۲۳) حنیف کی لغوی تحقیق: ابراہیم علیہ السلام کی صفتِ حنیف: حَنَفَ یَحْنِفُ حَنْفًا سے بنی ہے جو صفت مشبہ ہے۔ ’’صفت مشبہ‘‘ ایسی صفت کو کہتے ہیں جو ’’اسم فاعل‘‘ کے برعکس اپنے موصوف سے کبھی جدا نہیں ہوتی، بلکہ وہ بہ صورت دوام اس سے موصوف رہتا ہے اور حَنَفَ یَحْنِفُ حَنْفًا کے معنی ہیں : اعراض کرنا، کنارہ کش ہونا، الگ ہونا اور کٹ کر رہنا وغیرہ، اور قرآن پاک میں ابراہیم علیہ السلام کو عقیدہ توحید پر ان کے غیر معمولی اور بے مثال ثبات اور استقامت کی تاکید کے طور پر حنیف کہا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ مشرکوں یا شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ قرآن کے مطابق تمام انبیاء اور رسول، جن کے سرفہرست ہمارے نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں موحد خالص تھے اور شرک سے کلی طور پر پاک تھے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے موحد ہونے اور شرک سے پاک ہونے کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے اور بار بار یہ کیوں فرمایا گیا ہے کہ وہ مشرکوں میں سے نہ تھے؟ اس سوال کا جواب خود قرآن پاک میں موجود ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱۔ ابراہیم علیہ السلام بنو اسماعیل اور بنو اسحاق کے جد امجد ہیں اور یہود و نصاری اور مشرکین سب انہی سے رشتہ جوڑتے ہیں ، قرآن ان سب سے یہ کہتا ہے کہ ابراہیم سے تمہاری نسبت کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر تم صحیح معنوں میں ان کی اولاد ہوتے اور ان سے اپنے اس دعویٔ نسب میں سچے ہوتے تو ان کی طرح تم بھی موحد ہوتے، اب جبکہ تم